پشاور: گڑھے سے برآمد ہونے والی 16 لاشیں کس کی ہیں؟

ریسکیو 1122 کے ترجمان بلال احمد فیضی کے مطابق ایک مقامی شخص  کو ایک لاش کی کچھ باقیات نظر آئی تھیں، جس کے ساتھ ایک شناختی کارڈ بھی تھا، جب اس پتے پر رابطہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ اس علاقے سے 16 افراد کو 2011 میں اغوا کیا گیا تھا۔

لاشوں کو  شانگلہ منتقل کیا جائے گا۔ (تصویر: ریسکیو 1122)

پشاور پولیس کا کہنا ہے کہ ایف آر پشاور (یہ علاقہ اب ضلع پشاور میں ضم ہوگیا ہے) میں ریسکیو اہلکاروں کے ایک سرچ آپریشن کے دوران 2011 میں اغوا ہونے والے 16 افراد کی لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔

جس علاقے میں یہ لاشیں برآمد ہوئی ہیں، اس کا نام پستہ ونہ ہے، جو ضلع کوہاٹ کی حدود کے ساتھ متصل ہے۔

ضلع کوہاٹ کے پولیس ترجمان فضل نعیم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ افراد کوئلے کی کان میں کام کرنے والے مزدور تھے۔

انہوں نے بتایا: ’2011 میں جب سکیورٹی کے حالات خراب تھے تو اس وقت یہ افراد ضلع خیبر سے اغوا کیے گئے تھے اور اب ان کی باقیات  برآمد ہوئی ہیں، جنہیں لواحقین کے حوالے کیا جائے گا۔‘

یہ لاشیں کیسے برآمد ہوئیں؟

ریسکیو 1122 کے ترجمان بلال احمد فیضی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’گذشتہ روز اس علاقے میں مقامی شخص  کو ایک لاش کی کچھ باقیات نظر آئی تھیں، جس کے ساتھ ایک شناختی کارڈ بھی تھا، جس پر شانگلہ کا پتہ درج تھا۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ بعد میں معلوم ہوا کہ اس علاقے سے 2011  میں کوئلے کی کان میں کام کرنے والے مزدور اغوا کیے گئے تھے، جس پر علاقہ مکینوں نے ریسکیو 1122 کو اطلاع دی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب شناختی کارڈ کے پتہ پر جب رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ایک نہیں بلکہ 16 افراد کو اغوا کیا گیا تھا۔

بلال فیضی نے مزید بتایا کہ آج ریسکیو اہلکاروں نے آپریشن شروع کیا، جس پر ایک گڑھے میں دفن لاشوں کی باقیات برآمد ہوئیں۔

ان کا مزید کہنا تھا: ’ریسکیو والوں نے ان اغوا شدہ افراد کی ہڈیاں، ان کی پہنی ہوئی انگوٹھیاں اور لاکٹ برآمد کرکے ان کے اہل خانہ کو اطلاع دی اور ان سارے کان کنوں کا تعلق ضلع شانگلہ سے ہے۔‘

ترجمان بلال فیضی نے مزید بتایا کہ ان افراد کے اہل خانہ اب جائے وقوعہ پر موجود ہیں جبکہ ریسکیو 1122 نے یہ لاشیں شانگلہ منتقل کرنے کے لیے آٹھ ایمبولینسیں بھی تیار کرلی ہیں۔

کان کنوں کو کیسے اغوا کیا گیا تھا؟

ان کان کنوں کو ستمبر 2011  کی ایک صبح اس وقت اغوا کیا گیا تھا، جب انہوں نے ضلع خیبر کی تحصیل باڑا کی ایک کان میں کام کا آغاز کیا۔

اس وقت کے پولیٹیکل ایجنٹ (ضم ہونے کے بعد یہ اختیار ڈپٹی کمشنر کے پاس ہوتا ہے) نے میڈیا کو بتایا تھا کہ اغوا کیے گئے کان کنوں کی تعداد 30 کے قریب ہے، جنہیں تحصیل باڑا کے علاقے کالا خیل سے اغوا کیا گیا تھا۔

اغوا شدہ کان کنوں کا تعلق سوات اور شانگلہ سے تھا۔ اس وقت کی ضلعی انتظامیہ نے یہ بتایا تھا کہ اغوا شدہ کان کنوں کو شاید شدت پسند کدرہ آدم خیل کے علاقے تور چھپر لے کر گئے ہیں۔

اب ان کان کانوں کی باقیات اسی علاقے کے قریب سے برآمد کی گئی ہیں، جو ضلع کوہاٹ سے متصل ہے، لیکن انتظامی طور پر یہ ضلع پشاور کے ساتھ ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان