مچھ: 'کان کنوں کو ہاتھ باندھ کر ایسے مارا گیا جیسے ذاتی دشمنی ہو'

ہزارہ برادری اور قتل ہونے والے کان کنوں کے لواحقین نے مطالبات پورے ہونے تک میتوں کے ہمراہ کوئٹہ کے مغربی بائی پاس پر دھرنا جاری رکھا ہوا ہے۔

قتل کیے گئے مزدوروں کے لواحقین ان کی میتوں کو ایمبولینس میں کوئٹہ لاتے ہوئے (اے ایف پی)

اتوار (تین جنوری) کی صبح جب مرتضیٰ اطہر کی ایمبولینس سروس کو بلوچستان کے ضلع مچھ میں واقع ایک کان میں مزدوری کرنے والے کان کنوں کے قتل کی اطلاع ملی تو دیگر رضاکاروں کے ہمراہ وہ بھی کوئٹہ سے 70 کلومیٹر دور جائے وقوعہ کے لیے روانہ ہوئے۔

مرتضیٰ گذشتہ چار سالوں سے مذکورہ نجی ایمولینس سروس کے ساتھ بطور رضاکار کام کر رہے ہیں۔ اس ادارے کو ہزارہ کمیونٹی کے عطیات اور چندے سے چلایا جاتا ہے۔ مرتضیٰ کے مطابق وہ اکثر ایسے واقعات کے بعد جائے وقوعہ پر پہنچ کر لاشوں کو ایمبولینس میں ڈال کر ہسپتال پہنچاتے ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مچھ واقعے کی اطلاع بھی دیگر واقعات جیسی ہی تھی اور کوئٹہ سے مچھ جاتے ہوئے ان کے ذہن میں ایسا کوئی خیال بھی نہیں تھا۔ ’سب سے پہلے ہم بولان، پھر مچھ پہنچے اور پھر کچی سڑک پر تقریباً 10 کلومیٹر سفر کیا۔ جس علاقے میں ہم پہنچے اسے گیشتری کہا جاتا ہے۔ ہمارے سامنے کوئلے کی کانیں تھیں اور پہاڑ کے اوپر کان کنوں کی ایک رہائش گاہ نظر آئی۔

’جب رضا کار سٹریچر لے کر کمرے میں پہنچے تو کئی افراد کو خون میں اس طرح سے لت پت دیکھا، جیسے یہ کوئی حقیقت نہیں بلکہ ایک ڈراؤنی فلم کا منظر ہو۔ شروع میں کچھ سمجھ نہیں آیا، ہمارے اوسان خطا ہوگئے۔ ہم نے بڑی مشکل سے خود پر قابو پایا اور لاشوں کو ایک ایک کرکے منتقل کرنا شروع کیا۔‘

مچھ میں ہزارہ برادری کے مزدور پیشہ افراد کان کنی کی غرض سے موجود تھے، جنہیں ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب مسلح افراد نے کمرے میں گھس کر قتل کر دیا تھا۔ حکام کے مطابق اس واقعے میں 10 افراد ہلاک ہوئے ہیں، اس سے قبل یہ تعداد 11 بتائی گئی تھی۔

مرتضیٰ کہتے ہیں ’تمام لاشوں کے ہاتھ پیچھے باندھ کر ان کی آنکھوں پر پٹیاں باندھ دی گئی تھیں اور پھر ان کی گردنیں تیز دھار آلے کے ذریعے ایسے کاٹی گئی تھیں جیسے ان کے ساتھ کسی کی کوئی ذاتی دشمنی ہو۔‘ 

انہوں نے بتایا ’جب ہم لوگ جائے وقوعہ پر پہنچے تو ہمیں تین لاشیں کمرے سے ملیں جبکہ وہاں ایک ٹوٹی ہوئی چھری بھی ملی۔‘

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایک سکیورٹی اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’حملہ آوروں نے پہلے کان کنوں کے ہاتھ پاؤں باندھے اور پھر انہیں پہاڑوں میں لے جا کر قتل کردیا۔‘ انہوں نے مزید بتایا کہ ’کم از کم چار افراد کا سر قلم کیا گیا۔‘

ایک مقامی سکیورٹی اہلکار نے اے ایف پی کو بتایا کہ کان کنوں میں سے دو افغان تھے، جن کی لاشیں تدفین کے لیے افغانستان روانہ کردی گئیں۔

ماضی میں اس طرح کے فرقہ وارانہ واقعات کی ذمہ داری کالعدم مذہبی تنظیمیں قبول کرتی آئی ہیں اور حالیہ واقعے کی ذمہ داری بھی کالعدم تنظیم داعش نے اپنی ویب سائٹ پر جاری ایک بیان میں قبول کی ہے۔

لواحقین کا دھرنا

مچھ واقعے کے خلاف کوئٹہ کے مغربی بائی پاس پر ہزارہ برادری کے افراد اور قتل ہونے والے افراد کے لواحقین نے میتوں کے ہمراہ دھرنا دے رکھا ہے۔

مظاہرین کا کہنا ہے کہ ان کے مطالبات سنے جائیں اور ان پر عمل درآمد کے بغیر وہ اپنا دھرنا ختم نہیں کریں گے اور نہ ہی وہ لاشوں کی تدفین کریں گے۔

ان کے مطالبات میں یہ بھی شامل ہے کہ وزیراعظم عمران خان خود دھرنے کے مقام پر آکر ان کے مطالبات حل کرنے کی  یقین دہانی کرائیں۔

بلوچستان شیعہ کانفرنس کے سربراہ آغا داؤد نے اے ایف پی کو بتایا: ’ہم تمام قاتلوں کی گرفتاری تک اپنا احتجاج ختم نہیں کریں گے۔ اگر اس مرحلے پر فیصلہ کن کارروائی نہ کی گئی تو ہلاکتوں کی تازہ ترین لہر کوئٹہ سمیت دیگر شہروں میں پھیل جائے گی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کوئٹہ میں مقیم ہزارہ برادری کو گذشتہ کئی سالوں سے ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں کے ذریعے نشانہ بنائے جانے کے واقعات کا سامنا رہا ہے، جن میں اب تک متعدد افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔

اپریل 2019 میں بھی کوئٹہ کے علاقے ہزار گنجی میں سبزی منڈی میں ایک خود کش حملے میں ہزارہ برادری کے 20 افراد ہلاک اور 40 کے قریب زخمی ہوئے تھے۔ اس واقعے کے بعد بھی ہزارہ برادری نے کوئٹہ میں مغربی  بائی پاس پر اسی مقام پر احتجاجی دھرنا دیا تھا۔ 

اُس وقت بھی سابق وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی نے کوئٹہ آکر ہزارہ برادری کے رہنماؤں سے مذاکرات کیے تھے، جس کے بعد دھرنا تو ختم کردیا گیا تھا مگر ان کی داد رسی کے لیے وزیراعظم عمران خان کے کوئٹہ نہ آنے سے وہ مایوسی کا شکار ہوئے تھے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے وزیر داخلہ شیخ رشید کو کوئٹہ جانے اور دھرنا دینے والے افراد کے مطالبات سننے کا حکم دیا ہے جبکہ وزیر داخلہ نے نہ صرف وزارت داخلہ سے مچھ واقعے کی رپورٹ طلب کی ہے بلکہ اطلاعات ہیں کہ وہ خود بھی خصوصی طیارے کے ذریعے کوئٹہ جاکر دھرنے کے عمائدین سے مذاکرات کریں گے۔

'سی پیک کو سبوتاژ کرنےکی کوشش'

بلوچستان حکومت کے ترجمان لیاقت شاہوانی نے اتوار کو کوئٹہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مچھ واقعے کو ’سی پیک منصوبے کو سبوتاژ کرنے کی کوشش‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے واقعے کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ ’بلوچستان سب کا ہے، ملک دشمنوں کو ان کے مذموم عزائم کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔‘

لیاقت شاہوانی نے مزید کہا تھا کہ ’واقعے میں ملوث عناصر کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔ صوبے میں بحالی امن کی روشنیاں کسی قیمت پر تاریک نہیں ہونے دیں گے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان