درآمد شدہ قربانی کی گائیں، خدا کی تعریف میں پرانے نغموں اور بڑھتی ہوئی حمایت کے ساتھ کچھ قوم پرست یہودیوں کو امید ہے کہ وہ مقبوضہ بیت المقدس میں مسجد اقصیٰ کو گرا کر اس پر دوبارہ اپنا ہیکل تعمیر کریں گے۔
فرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق تل ابیب کے ایک مضافاتی علاقے میں یہودیوں کا ایک گروہ یہودی ہیکل کی تباہی کے تقریبا دو ہزار سال بعد اس کی تعمیر نو پر خوشیاں منانے کی تیاری کر رہا ہے جس کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ اس کی تعمیر کے بعد مسیحا جلد دنیا میں ظہور پذیر ہوں گے۔
لیکن دوسروں کے لیے ان کے مقصد کے حصول سے اسرائیل کے زیر قبضہ مشرقی بیت المقدس میں مسجد اقصیٰ کے گردونواح میں کشیدگی بڑھے گی۔
بنیاد پرست یہودی گروپ کورسٹر کے ارکان کا دعویٰ ہے کہ وہ لیوی قبیلے کا حصہ ہیں جس کا ذکر بائبل (انجیل) میں ہے، جو کہ اس مقدس مقام پر حمد اور موسیقی پیش کرتے تھے۔
ٹیمپل انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے چند ماہ قبل بنائے گئے صرف مردوں کے گروپ کے ڈائریکٹر مینہیم روزنتھال نے کہا، ’جب ہیکل بن جائے گا تو ہم لیویوں کو کہیں گے کہ آئیں اور گائیں۔ انہیں گانا نہیں آتا ہوگا تو انہیں سیکھنا پڑے گا۔‘
ان کی نظریں مقبوضہ بیت المقدس کے پرانے شہر کے وسط میں درختوں سے بنے ایک بڑے احاطے پر ہیں۔ اس احاطے میں میں مسجد اقصیٰ صدیوں سے موجود ہے جو کہ اسلام کا تیسرا سب سے مقدس مقام ہے جب کہ یہ یہودی اس جگہ کو ٹیمپل ماؤنٹ کہتے ہیں اور اسے اپنا مقدس ترین مقام کہتے ہیں۔
ہیکل کی حمایت کرنے والے 50 سالہ ہیم برکووٹس کا کہنا ہے کہ اس جگہ پر یہودیوں کی عبادت ’صرف کچھ وقت کی بات ہے۔‘
ہیم برکووٹس ’بونیہ اسرائیل‘ (اسرائیل کی تعمیر) گروپ کا حصہ ہیں۔ ان کی ویب سائٹ کے مطابق یہ ایک ایسی تنظیم ہے جو ’جلد نجات لانے‘ کے لیے کام کرتی ہے۔
اپنی جلد نجات کے لیے بونیہ اسرائیل نے گذشتہ سال امریکہ سے پانچ سرخ بچھڑے درآمد کیے تھے۔
ان کا منصوبہ ہے کہ انہیں قربان کیا جائے اور راکھ کو پانی کے ساتھ ملایا جائے اور اس مرکب سے ’ناپاک‘ سمجھے جانے والے کسی بھی شخص کو ’پاک‘ کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
ہیم برکووٹس نے کہا کہ بونیہ اسرائیل نے پہلے ہی مشرقی مقبوضہ بیت المقدس میں جبل زیتون پر زمین حاصل کر لی ہے، تاکہ جانوروں کو ٹیمپل ماؤنٹ کے سامنے جلایا جا سکے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسرائیل میں جمہوریت کے تحفظ کے لیے کیشیف سینٹر کے ڈائریکٹر یزر بیئر کا کہنا ہے کہ یہ ’تیسرے ہیکل کے چاہنے والے‘ کسی بھی طرح معمولی نہیں ہیں۔
بیئر نے کہا کہ دو دہائیاں قبل چند درجن پیروکاروں سے ان کا نظریہ ’سیاسی سطح کے مرکز – پارلیمنٹ، حکومت تک پھیل گیا ہے۔‘
یہاں یہ بات دلچسپ ہے کہ عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان 1967 میں ہونے والی چھ دن پر محیط جنگ کو 56 سال بھی رواں ہفتے کو مکمل ہو رہے ہیں۔ 1967 کی اس جنگ میں اسرائیل نے غزہ کی پٹی، مغربی کنارے، بیت المقدس اور گولان ہائیٹس پر قبضہ کیا تھا۔ یہ جنگ 5 جون سے 10 جون تک جاری رہی تھی۔
دسمبر سے نتن یاہو انتہائی دائیں بازو کے وزرا کے ساتھ مل کر حکومت کی قیادت کر رہے ہیں جو مسجد اقصیٰ کے احاطے پر اسرائیلی خودمختاری مسلط کرنے کی وکیل ہے۔
اقوام متحدہ، امریکہ اور یورپی یونین نے حالیہ مہینوں میں مقبوضہ بیت المقدس کے مقدس مقامات کی حیثیت جوں کی توں رکھنے کا مطالبہ کیا ہے۔
فلسطینی، یہودیوں کے اس مقام پر آنے کو ’خطرہ‘ اور اس مقام کو ’یہودی‘ بنانے کی کوشش قرار دیتے اور ان کی مذمت کرتے ہیں۔ یہاں صرف مسلمانوں کر نماز پڑھنے کی اجازت ہے۔
بین الاقوامی برادری نے مشرقی مقبوضہ بیت المقدس پر اسرائیل کے الحاق کو کبھی تسلیم نہیں کیا اور اسے مقبوضہ فلسطینی علاقہ قرار دیا ہے۔