سعودی عرب نے جمعے کو بیت المقدس میں مسجد الاقصی پر دھاوا بولنے، اس کے دروازے بند کرنے اور مسجد کے اندر اور اس کے بیرونی صحن میں نمازیوں پر حملہ کرنے پر اسرائیلی قابض افواج کی مذمت کی ہے۔
عرب نیوز کے مطابق مسجد اقصیٰ میں فلسطینیوں پر اسرائیلی پولیس کے دھاوے کے بعد تقریباً ایک سال کے دوران اس مقام پر ہونے والے شدید ترین تشدد میں 150 سے زائد فلسطینی زخمی ہوئے جب ہزاروں افراد رمضان کے مقدس مہینے میں نماز کے لیے جمع تھے۔
مملکت کی وزارتِ خارجہ نے کہا کہ وہ اس منظم دھاوے کو مسجد اقصیٰ کے تقدس اور اسلامی ملت کے لیے اس کی اہمیت پر ایک صریح حملہ اور متعلقہ بین الاقوامی قراردادوں اور معاہدوں کی خلاف ورزی سمجھتی ہے۔
سعودی وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ ’مملکت نے بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیلی قابض افواج کو نہتے فلسطینی عوام، ان کی سرزمین اور ان کے مقدس مقامات پر ہونے والے ان جاری جرائم اور خلاف ورزیوں کے لیے پوری طرح ذمہ دار ٹھہرائے۔‘
جمعے کو طلوع فجر سے قبل اسرائیلی سکیورٹی فورسز مقبوضہ بیت المقدس میں واقع مسجد اقصیٰ کے احاطے میں داخل ہو گئیں تھیں جہاں ہزاروں فلسطینی رمضان کے مقدس مہینے میں نماز کے لیے جمع تھے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اسرائیل نے کہا کہ فورسز ان چٹانوں اور پتھروں کو ہٹانے کے لیے مسجد میں داخل ہوئیں جو تشدد کے پیش نظر جمع کیے گئے تھے۔
فلسطینی مسجد الاقصیٰ میں پولیس کی کسی بھی تعیناتی کو ایک بڑی اشتعال انگیزی کے طور پر دیکھتے ہیں۔
یہ مسجد اسلام کا تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔ یہ مقبوضہ بیت المقدس کے پرانے شہر کی ایک پہاڑی کی چوٹی پر بنائی گئی ہے جو یہودیوں کے لیے سب سے مقدس مقام ہے اور وہ اسے ’ٹمپل ماؤنٹ‘ کہتے ہیں۔
یہ کئی دہائیوں سے اسرائیلی اور فلسطینیوں کے درمیان تشدد کا ایک بڑا فلیش پوائنٹ رہا ہے اور 2000 سے 2005 کے درمیان فلسطینی مزاحمت کا کا مرکز تھا۔
مسجد اقصیٰ پر اسرائیلی دھاوے پر امریکہ کو تشویش
امریکہ نے جمعے کو مسجد اقصیٰ پر اسرائیلی دھاوے کے دوران اسرائیلی پولیس اور فلسطینی مظاہرین میں جھڑپوں میں 150 سے زائد افراد کے زخمی ہونے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
یہ جھڑپیں اسرائیل اور مقبوضہ مغربی کنارے میں جان لیوا تشدد کی لہر کے تیسرے ہفتے رونما ہوئیں جب یہودیوں کا تہوار پاس اوور، عیسائیوں کا تہوار ایسٹر اور مسلمانوں کا مقدس مہینہ رمضان تینوں اکٹھے وقوع پذیر ہو رہے ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’ہم تمام فریقین سے تحمل سے کام لینے کو کہتے ہیں اور یہ کہ کسی بھی اشتعال انگیز عمل سے گریز کیا جائے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم فلسطینی اور اسرائیلی حکام سے مل جل کر تناؤ کر کم کرنے اور ہر کسی کی حفاظت ممکن بنانے کے خواہاں ہیں۔‘