امریکی امداد میں کٹوتی سے 1 کروڑ 40 لاکھ سے زائد اموات کا خدشہ: تحقیق

ایک تحقیق کے مطابق امریکہ کی جانب سے غیرملکی امداد کے خاتمے سے دنیا کے سب سے کمزور طبقات سے تعلق رکھنے والے ایک کروڑ 40 لاکھ سے زائد افراد جان سے جا سکتے ہیں۔ ان میں ایک تہائی تعداد چھوٹے بچوں کی ہے۔

20 مئی کو افریقی ملک برونڈی میں ریاستہائے متحدہ کی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی (USAID) کی طرف سے فراہم کردہ آخری کھیپ سے چاول کی بوری کا وزن کیا جا رہا ہے  (اے ایف اے)

منگل کو شائع ہوئی ایک تحقیق میں کی گئی پیش گوئی کے مطابق امریکہ کی جانب سے غیر ملکی امداد کے خاتمے سے دنیا کے سب سے کمزور طبقات سے تعلق رکھنے والے ایک کروڑ 40 لاکھ سے زائد افراد جان سے جا سکتے ہیں۔ ان میں ایک تہائی تعداد چھوٹے بچوں کی ہے۔

یہ تحقیق معروف طبی جریدے ’دی لینسٹ‘ میں منگل کو اس وقت شائع ہوئی جب دنیا اور کاروباری رہنما سپین میں اقوام متحدہ کے ایک اجلاس میں امدادی شعبے کو مضبوط کرنے کے لیے جمع ہو رہے ہیں۔

امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی )یو ایس ایڈ) جنوری میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس واپسی سے قبل تک عالمی انسانی امداد کا 40 فیصد فراہم کر رہا تھا۔

دو ہفتے بعد، ٹرمپ کے اس وقت کے قریبی مشیر اور دنیا کے امیر ترین شخص، ایلون مسک نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے اس ایجنسی کو ’چکی میں پیس دیا۔‘

تحقیق کے شریک مصنف، بارسلونا انسٹی ٹیوٹ فار گلوبل ہیلتھ کے محقق ڈاویدے راسیلا نے خبردار کیا: ’یہ مالی کٹوتیاں پچھلے دو عشروں میں کمزور طبقات میں صحت کے شعبے میں حاصل ہونے والی پیشرفت کو اچانک روک سکتی ہیں، بلکہ الٹا بھی ڈال سکتی ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’کم اور درمیانی آمدنی والے کئی ممالک کے لیے یہ جھٹکا کسی عالمی وبا یا بڑے مسلح تصادم کے برابر ہو گا۔‘

تحقیق کاروں کی بین الاقوامی ٹیم نے 133 ممالک کے ڈیٹا کا جائزہ لے کر اندازہ لگایا کہ یو ایس ایڈ نے 2001 سے 2021 کے درمیان ترقی پذیر ممالک میں نو کروڑ 10 لاکھ افراد کو مرنے سے بچایا۔

اسی ماڈلنگ کے ذریعے انہوں نے پیش گوئی کی کہ اگر امریکی حکومت کی اعلان کردہ 83 فیصد امدادی کٹوتی نافذ ہوئی، تو اس کے نتیجے میں 2030 تک ایک کروڑ 40 لاکھ سے زائد اموات واقع ہو سکتی ہیں، جن میں 45  لاکھ سے زائد پانچ سال سے کم عمر کے بچے شامل ہوں گے، یعنی سالانہ تقریباً سات لاکھ بچے۔

موازنے کے طور پر، پہلی عالمی جنگ میں تقریباً ایک کروڑ فوجی مارے گئے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تحقیق سے یہ بھی پتہ چلا کہ یو ایس ایڈ کی معاونت سے چلنے والے پروگراموں کی وجہ سے مجموعی اموات میں 15 فیصد کمی واقع ہوئی۔

پانچ سال سے کم عمر بچوں کی اموات میں یہ کمی دو گنا یعنی 32 فیصد تھی۔

یو ایس ایڈ کی مالی معاونت خاص طور پر قابلِ علاج بیماریوں سے ہونے والی اموات کو روکنے میں مؤثر ثابت ہوئی۔

جن ممالک کو یو ایس ایڈ سے زیادہ معاونت ملی، وہاں ایچ آئی وی/ایڈز سے ہونے والی اموات میں 65 فیصد کمی دیکھی گئی، جب کہ ملیریا اور نظرانداز کی گئی متعدی بیماریوں سے اموات میں بھی نصف کمی ہوئی۔

’اب امداد بڑھانے کا وقت ہے‘

یو ایس ایڈ کی بجٹ کٹوتی کے بعد، دیگر کئی بڑے عطیہ دہندگان جیسے جرمنی، برطانیہ اور فرانس نے بھی اپنے امدادی بجٹ میں کمی کے منصوبے کا اعلان کر دیا ہے۔

مطالعہ کی شریک مصنفہ کیترینا مونٹی نے کہا کہ یورپی یونین میں ان امدادی کمیوں کے باعث آئندہ برسوں میں ’مزید اموات کا خطرہ‘ بڑھ جائے گا۔

تاہم محققین نے زور دیا کہ اموات کی یہ خوف ناک پیش گوئیاں موجودہ امدادی وعدوں کی بنیاد پر کی گئی ہیں، اور اگر صورت حال تبدیل ہوئی تو یہ تعداد کم ہو سکتی ہے۔

دنیا بھر سے درجنوں رہنما اس ہفتے سپین کے شہر سیویل کانفرنس میں شرکت کر رہے ہیں۔ یہ گذشتہ ایک دہائی کی سب سے بڑی امدادی کانفرنس ہے، البتہ امریکہ اس اجلاس میں شریک نہیں ہو رہا۔

ڈاویدے راسیلا نے کہا: ’یہ وقت ہے کہ ہم امداد میں کمی نہ کریں بلکہ اسے مزید بڑھائیں۔‘

یو ایس ایڈ کی فنڈنگ میں کٹوتی سے قبل اس کا بجٹ امریکی وفاقی اخراجات کا صرف 0.3 فیصد تھا۔

تحقیق کے شریک مصنف، یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، لاس اینجلس کے جیمز میکِنکو نے کہا:

’امریکی شہری روزانہ اوسطاً صرف 17 سینٹ یعنی سالانہ تقریباً 64 ڈالر  یو ایس ایڈ میں دیتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر عوام جانیں کہ یہ معمولی رقم کس طرح لاکھوں جانیں بچا سکتی ہے، تو وہ امداد جاری رکھنے کی حمایت ضرور کریں گے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا