شمالی وزیرستان میں شام کے بعد نقل و حرکت پر پابندی کا فیصلہ کیوں کیا گیا؟

ضلعی انتظامیہ کے مطابق مغرب کی اذان سے صبح سورج نکلنے تک نقل و حرکت پر پابندی فیصلہ امن و امان کی صورت حال کی وجہ سے اٹھایا گیا ہے۔

شمالی وزیرستان میں طالبان کے خلاف فوجی آپریشن کی وجہ سے بے گھر ہونے والے پاکستانی شہری 28 جون 2014 کو بنوں پہنچ رہے ہیں (اے ایف پی)

خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع شمالی وزیرستان میں انتظامیہ کی جانب سے رواں ہفتے جاری ایک مراسلے کے مطابق ایک ماہ کے لیے مغرب کی اذان سے طلوع آفتاب تک عام لوگوں کی نقل و حرکت پر پابندی ہو گی۔ 

ڈپٹی کمشنر کے دفتر سے 29 جون کو جاری اعلامیے کے مطابق کسی بھی ناخوشگوار واقعے، عوامی معاملات بہتر طریقے سے چلانے اور امن و امان کی صورت حال کی وجہ سے یہ اقدام اٹھایا گیا ہے۔ 

اعلامیے کے مطابق مغرب کی آذان سے صبح سورج نکلنے تک مرکزی سڑکوں کے علاوہ گلیوں، پبلک مقامات، بازاروں، اور کھیل کے میدانوں میں بھی نقل و حرکت پر پابندی ہو گی۔ 

ضلعی انتظامیہ کے فیصلے کے مطابق نجی گاڑیوں اور دیگر ٹریفک پر بھی شام کے بعد پابندی ہو گی اور اگر کسی نے ہدایات کی خلاف ورزی کی تو ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ 

دوسرے مراسلے میں ضلعی انتظامیہ نے شمالی وزیرستان میں مخدوش سیکورٹی صورت حال کی وجہ سے کسی قسم کی ترقیاتی سکیم پر کام کرنے یا نے ٹیبڈر کی منظوری پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔ 

یہ احکامات بظاہر علاقے میں عسکریت پسندوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کے تناظر میں جاری کیے گئے ہیں۔ شمالی وزیرستان میں گذشتہ کچھ عرصے سے مقامی افراد کے مطابق امن و امان کی صورت حال خراب ہو رہی ہے اور سکیورٹی فورسز پر مختلف مقامات پر حملے بھی کیے جا رہے ہیں۔

پاکستانی فوج کے ایک بیان کے مطابق شمالی وزیرستان کے علاقے خدی میں اتوار کو سکیورٹی فورسز کی قافلے پر حملے میں 13 اہلکار جان سے گئے تھے جب کہ جوابی کارروائی میں 14 عسکریت پسند مارے گئے۔

حالیہ عرصے میں اس علاقے میں ایک ہی دن میں یہ پاکستانی فوج کا سب سے بڑا نقصان ہے۔

پاکستان فوج کی طرف سے جاری ہونے والے حالیہ بیانات کے مطابق وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے موجودگی کی اطلاعات پر ان کے خلاف انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر مختلف علاقوں میں کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔

وزیرستان میں عسکریت پسند کمانڈر حافظ گل بہادر کا گروپ سرگرم ہے جو مختلف علاقوں میں کارروائیاں کرتا آیا ہے۔

صحافی رسول داوڑ کا تعلق شمالی وزیرستان سے ہے اور وہ ماضی میں وزیرستان میں مختلف سکیورٹی آپریشن کور کر چکے ہیں۔ 

انہوں نے بتایا کہ 2014 میں آپریشن ضرب عضب کے بعد پہلی مرتبہ شمالی وزیرستان میں شام کے بعد نقل و حرکت پر پابندی عائد کی گئی جس سے عام لوگ خوف زدہ ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رسول داوڑ نے بتایا کہ ’وہاں میرے اپنے خاندان کے افراد نے کال کر کے بتایا کہ یہاں مزید کاروبار کرنا مشکل ہے اور اب یہاں سے نقل مکانی ضروری ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ علاقے کے عوام کو انٹیلی جنس کی بنیاد پر آپریشن سے کوئی مسئلہ نہیں لیکن اب کرفیو کی نفاذ سے عوام کو بہت مشکلات درپیش آئیں گی اور خصوصی طور پر بیماری کی صورت میں نقل و حرکت مشکل ہوجائے گی۔ 

رسول داوڑ کہتے ہیں ’طلبہ کی تعلیم بھی متاثر ہو رہی ہے اور اب میٹرک امتحانات کے تین پرچے ان حالات کی وجہ سے بھی ملتوی کیے گئے ہیں۔‘

شمالی وزیرستان کے میر علی کے رہائشی عادل داوڑ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ شام کے بعد نقل و حرکت پر پابندی کے فیصلے کے بعد بازار ویران نظر آ رہے ہیں کیونکہ عوام میں خوف پایا جاتا تھا۔

عام شہریوں کے متاثر ہونے کا معاملہ 

شمالی وزیرستان میں گذشتہ کچھ عرصے میں عسکریت پسندوں اور سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں میں عام شہری بھی نشانہ بن رہے ہیں جبکہ وہاں کے رہائشیوں کے مطابق کواڈکاپٹر اور ڈرون کی مبینہ استعمال کی باتیں بھی کی جاتی ہیں جس سے عام شہری نشانہ بنتے ہیں۔

گذشتہ روز بھی جنوبی وزیرستان کے لدھا کے علاقے میں مقامی افراد کے مطابق سکیورٹی فورسز اور عسکریت پسندوں کے مابین جھڑپوں کے دوران ایک مکان میں ایک خاتون کی موت واقع ہوئی ہے، تاہم اس حوالے سے ابھی تک سرکاری موقف سامنے نہیں آیا ہے۔ 

ایسا ہی ایک واقعہ 19 مئی کو پیش آیا تھا جس میں میر علی کے گاؤں ہرمز میں ایک مکان پر مبینہ کواڈ کاپٹر حملے کے نتیجے میں چار بچے جان سے گئے تھے۔ 

اس واقعے کے بعد مقامی افراد کی جانب سے دھرنا بھی دیا گیا تھا اور چھ دن بعد انتظامیہ کے ساتھ کامیاب مذاکرات کے بعد دھرنا ختم کر دیا گیا تھا۔

جنوبی وزیرستان کے علاقے مکین میں بھی 21 جون کو ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا تھا جس میں جنوبی وزیرستان کے رکن صوبائی اسمبلی آصف خان کے مطابق پانچ بچے مبینہ ڈرون حملے میں زخمی ہوئے تھے اور بعد میں ان میں سے ایک ایک جان گئی تھی۔ 

آصف خان نے اس حوالے سے ایک قرارداد بھی صوبائی اسمبلی میں پیش کی تھی کہ شہریوں کے جانی نقصان کی وجہ سے عوام اور ریاست کے درمیان دوریاں پیدا ہوتی ہے۔ 

عام شہریوں کے جانی نقصان سے متعلق صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر ڈاکٹر محمد علی سیف نے اسلام آباد میں صحافیوں کے ساتھ ملاقات میں بتایا کہ عسکریت پسند رات وقت عام طور پر سویلین آبادی میں آجاتے ہیں۔ اس بابت چند ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر گردش میں ہیں۔

’سویلین آبادی میں چونکہ اداروں کے لیے کارروائی مشکل ہوتی ہے تو جب کوئی جھڑپ ہوتی ہے تو اس سے بعض دفعہ عام شہریوں کا جانی و مالی نقصان ہوتا اور اس کی ایک مثال حالیہ سکیورٹی قافلے پر حملہ ہے جس میں کچھ بچے اور عورتیں زخمی ہوئیں اور گھروں کی چھتیں گر گئیں۔‘

بیرسٹر سیف نے ڈرون اور کواڈکاپٹر کی استعمال کی حوالے سے بتایا کہ یہ ہمیں واضح نہیں ہے کہ عسکریت پسند انہیں استعمال کر رہے یا کوئی اور۔

انہوں نے بتایا کہ عسکریت کی کچھ ویڈیوز میں ڈرون کا استعمال دکھایا گیا ہے لیکن چونکہ وہاں جنگی ماحول ہے اور سکیورٹی فورسز علاقے کو کنٹرول کر رہی ہیں تو یہ ان کا مینڈیٹ ہے کہ اس حوالے سے تفصیلات دیں۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان