انسان خوش رہنے کے لیے بنا ہے یا اپنی نسل آگے بڑھانے کے لیے؟

اگر آپ کسی وقت ناخوش ہوتے ہیں تو اس میں آپ کی کوئی غلطی نہیں ہے اور نہ ہی فوری طور پر اس کا علاج کیا جا سکتی ہے۔ در حقیقت یہ اتار چڑھاؤ ہی ہے جو آپ کو انسان بناتا ہے۔

خوشی ہوا میں اڑتے ہوئے پرندوں کے پروں کی مانند ہوتی ہے۔ یہ اڑنے میں ہلکے ہوتے ہیں تاہم یہ طویل عرصہ تک پرواز نہیں کر سکتے۔(اے ایف پی)

خوشی اور مثبت سوچ بیچنے والی صنعت (مثلا موٹیویشنل سپیکنگ) ایک اندازے کے مطابق 11 ارب ڈالر سالانہ کا کاروبار کرتی ہے جس نے اس خیال کو جنم دیا ہے کہ خوشی ایک حقیقی مقصد ہے۔ خوشی کے خواب کے پیچھے بھاگنا امریکی تصور ہے جسے اپنے اس مشہور فلسفے کے ذریعے وہ باقی دنیا میں بھی پھیلا چکا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ خوشی کے حصول کو امریکیوں کے بنیادی حقوق میں سے ایک سمجھا جاتا ہے تاہم بدقسمتی سے اس سے وہ توقعات جنم لیتی ہیں جو حقیقی زندگی میں پوری نہیں ہو پاتیں۔ کیوں کہ جب ہماری تمام مادی اور جسمانی ضروریات پوری ہو جاتی ہیں تب بھی پائیدار خوشی کی کیفیت کو برقرار رکھنا نظریاتی اور مبہم مقصد بن جاتا ہے جیسا کہ غرناطہ کے خلیفہ عبدالرحمٰن سوم نے دسویں صدی میں یہ حقیقت دریافت کر لی تھی۔

اندلس (موجودہ سپین) کے اس حکمران نے فوجی فتوحات کے ساتھ ساتھ ثقافتی میدان میں بھی کامرانیاں سمیٹیں،  ان کے اپنے ذاتی دو حرم ہوا کرتے تھے۔ تاہم اپنی زندگی کے آخری ایام میں عبدالرحمٰن سوم نے وہ دن گننے کا فیصلہ کیا جن میں انہوں نے حقیقتاً خوشی محسوس کی تھی۔ حیران کن طور پر ان کی تعداد محض 14 دن تھی۔

برازیلین شاعر ونسیس ڈی موریس کے مطابق خوشی ہوا میں اڑتے ہوئے پرندوں کے پروں کی مانند ہوتی ہے۔ یہ اڑنے میں ہلکے ہوتے ہیں تاہم یہ طویل عرصہ تک پرواز نہیں کر سکتے۔ خوشی درحقیقت ایک انسانی تخیل ہے، ایک ایسا تجریدی تصور جس کا حقیقی انسانی تجربے میں کوئی تقابل نہیں ہے۔

مثبت اور منفی سوچ دماغ میں موجود ہو سکتی ہے لیکن خوشی کا احساس مستقل طور پر قائم نہیں رہ سکتا اور نہ اس کی کوئی حیاتیاتی بنیاد ہے۔  لیکن شاید حیرت انگیز طور پر میں اندازہ لگا سکتا ہوں کہ اصل میں خوشی ہوتی کیا ہے۔

فطرت اور ارتقاء

انسانوں کو خوش  یا حتی کہ مطمئن ہونے کے لئے تخلیق نہیں کیا گیا ہے۔ اس کے برعکس ہم بنیادی طور پر فطری دنیا کی ہر دوسری مخلوق کی طرح صرف زندہ رہنے اور اپنی نسل بڑھانے کے لئے تخلیق کیے گئے ہیں۔

 اصل میں فطرت خوشی یا اطمنان کی حوصلہ شکنی کرتی ہے کیونکہ یہ ہماری بقا کو لاحق ممکنہ خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے ہماری دفاعی حکمت عملی کو کمزور کردیتی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ارتقاء نے خوش رہنے کی فطری صلاحیت سے کہیں زیادہ ہمارے دماغ میں چوکنا رہنے (جو ہمیں عمدہ اور منفرد تجزیاتی قابلیت فراہم کرتا ہے) کو ترجیح دی ہے۔

یہ ہمیں قدرت کی ترجیحات کے بارے میں بہت کچھ بتاتا ہے۔ دماغ میں مختلف جغرافیائی مقامات اور سرکٹس مخصوص اعصابی اور فکری افعال سے وابستہ ہوتے ہیں۔ لیکن خوشی دماغ کے ٹشوز میں نہیں مل سکتی۔

در حقیقت اس شعبے کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ارتقاء کے عمل میں افسردگی کو ختم کرنے میں فطرت کی ناکامی (بقاء اور افزائشِ نسل کے ضمن میں واضح نقصانات کے باوجود) اس حقیقت کی قطعی وجہ ہے کہ افسردگی مشکلات میں مفید کردار ادا کرتی ہے۔ یہ افسردہ فرد کو خطرے اور ناامیدی جیسے حالات میں اس وقت بھی مدد فراہم کرتی ہے جب وہ جیت نہیں سکتے۔ افسردہ سوچ بچار مشکل اوقات کے دوران مسئلہ کو حل کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اخلاقیات

خوشی کے موجودہ تصور کی کچھ جڑیں مسیحی اخلاقیات سے جڑی ہوئی ہیں جن میں سے بہت سے ضابطے یہ بتائیں گے کہ ہمیں پیش آنے والی کسی بھی افسردگی کی ایک اخلاقی وجہ  ہو سکتی ہے۔

 وہ اکثر کہیں گے کہ یہ افسردگی ہماری اپنی اخلاقی کوتاہیوں، خود غرضی اور مادیت پرستی کی وجہ سے ہے۔

وہ نیکی اور نفسیاتی توازن کے حصول کے لیے ترک دنیا، لاتعلقی اور جسمانی خواہش کو مارنے جیسے اقدامات کی تبلیغ کرتے ہیں۔

در حقیقت یہ حکمت عملی محض زندگی کو مستقل مزاجی سے لطف اندوز ہونے میں ہماری فطری نا اہلی کا کوئی تدارک ڈھونڈنے کی کوشش کرتی ہے۔ لہذا ہمیں یہ جان کر راحت حاصل کرنی چاہئے کہ ناخوشی یا افسردگی واقعی ہماری غلطی نہیں ہے۔ یہ ہمارے فطری تخلیق کی غلطی ہے۔ یہ ہمارے بلیو پرنٹ میں شامل ہے۔

وہ لوگ جو اخلاقیات کو خوشی سے نتھی کرتے ہیں، وہ بھی خوشی کے حصول کے لیے بطور شارٹ کٹ سکون آور ادویات کی مدد لینے سے منع کرتے ہیں۔

 جارج برنارڈ شا کے مطابق: ’ہمیں خوشی حاصل کیے بغیر اس سے لطف اندوز ہونے کا اسی طرح حق حاصل نہیں ہے جس طرح بغیر دولت کمائے اسے استعمال کرنا۔‘

بظاہر ہمیں ’خیر‘ حاصل کرنے کی ضرورت ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ قدرتی طور پر حاصل نہیں کی جا سکتی۔

الڈوس ہکسلے کی نئی دنیا کے بہادر باشندے ’سوما‘ کی مدد سے نہایت خوشگوار زندگی گزارتے ہیں۔ وہ نشہ جو انھیں تابعدار لیکن مطمئن رکھتا ہے۔

 ہکسلے نے اپنے ناول میں اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ ایک آزاد انسان کو لازمی طور پر مشکل جذبات کا شکار ہونا پڑتا ہے۔

اگر جذباتی عذاب اور سکون کے درمیان انتخاب  کیا جائے تو مجھے شبہ ہے کہ بہت سے لوگ آخرالذکر کو ترجیح دیں گے۔

لیکن حقیقت کی دنیا میں ’سوما‘ موجود نہیں ہے لہذا مسئلہ یہ نہیں ہے کہ کیمیائی ذرائع سے قابل اعتماد اور مستقل اطمینان حاصل کرنا غیر قانونی ہے بلکہ یہ ناممکن ہے۔

کیمیائی ذرائع دماغ کو بھٹکا دیتے ہیں (جو بعض اوقات ایک اچھی چیز ہوسکتی ہے) لیکن چونکہ خوشی کا تعلق دماغ کے کسی خاص عمل سے نہیں ہوتا ہے لہذا ہم کیمیائی انداز میں اس کا متبادل نہیں بنا سکتے۔

خوش اور ناخوش

ہماری زندگی کی ہر چیز کی طرح، ہمارے جذبات بھی مخلوط، ناپاک ، گندے ، الجھے ہوئے اور بعض اوقات متضاد ہوتے ہیں۔

تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ مثبت اور منفی جذبات اور ان کے اثرات دماغ میں ایک دوسرے کے ساتھ نسبتاً آزادانہ طور پر ایک ساتھ رہ سکتے ہیں۔

یہ ماڈل ظاہر کرتا ہے کہ دماغ کا دائیں طرف کا حصہ منفی جذبات پر ترجیحی طور پر عملدرآمد کرتا ہے جبکہ بائیں جانب کا حصہ مثبت جذبات پیدا کرتا ہے۔

پھر یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم مستقل طور پر خوش رہنے کے لئے تخلیق نہیں ہوئے ہیں۔ اس کے بجائے ہم زندہ رہنے، اپنے بچاؤ اور افزائشِ نسل کے لئے تخلیق کیے گئے ہیں۔

یہ مشکل کام ہیں، لہذا ہم سخت محنت، تسکین اور حفاظت کے حصول، خطرات سے لڑنے اور درد سے بچنے کے لئے مسلسل جد و جہد جاری رکھتے ہیں۔

زندگی میں ساتھ ساتھ چلنے والے خوشی اور دکھ  کے مسابقتی جذبات ان ناقابل حصول نعمتوں سے بہتر ہیں جو خوشی کی صنعت ہمیں فروخت کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

درحقیقت کسی بھی حد تک درد کو غیرمعمولی یا ناقابل برداشت ہونے کا دکھاوا صرف اھورے پن اور مایوسی کے جذبات کو فروغ دیتا ہے۔

یہ سوچنا کہ خوشی نامی کسی شے کا اس دنیا میں وجود نہیں ہے شاید ایک منفی پیغام ہے لیکن اس کو ڈھانپنے یا تسلی دینے سے یہ حقیقت بدل نہیں جاتی کہ عدم اطمینان ذاتی ناکامی نہیں ہے۔

 اگر آپ کسی وقت ناخوش ہوتے ہیں تو اس میں آپ کی کوئی غلطی نہیں ہے اور نہ ہی فوری طور پر اس کا علاج کیا جا سکتی ہے۔ در حقیقت یہ اتار چڑھاؤ ہی ہے جو آپ کو انسان بناتا ہے۔

مضمون نگار ایک ماہر نفسیات ہیں اور یہ مضمون سب سے پہلے ’دی کنورسیشن‘ میں چھپا تھا۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق