ذکا اشرف کے چیئرمین پی سی بی بننے کی راہ ہموار

نجم سیٹھی گذشتہ ایک ہفتہ میں وزیراعظم سمیت اہم حکومتی عہدیداروں سے ملاقاتیں کر چکے تھے لیکن پی پی پی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کو منانے میں ناکام رہے۔

پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے اس وقت کے معزول چیئرمین ذکا اشرف 10 فروری 2014 کو لاہور میں موبائل فون پر بات کر رہے ہیں۔ پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے قومی کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے ساتھ طویل عرصے سے جاری تنازع میں تازہ ترین موڑ لیتے ہوئے ملک کے کرکٹ چیف ذکا اشرف کو عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ ایک سال سے بھی کم عرصے میں یہ دوسرا موقع تھا جب ذکا کو پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے چیئرمین کے عہدے سے ہٹایا گیا (عارف علی/ اے ایف پی)

پاکستان میں کھیلوں کے سب سے طاقتور اور منافع بخش ادارے پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے چیئرمین کے عہدہ کے جوڑ توڑ کی کوششیں ڈرامائی انداز میں اس وقت دم توڑ گئیں جب موجودہ انتظامی کمیٹی کے چیئرمین اور سابق بورڈ چیئرمین نجم سیٹھی نےسوشل میڈیا پر اپنے اس عہدے کے انتخاب کی دوڑ سے سبکدوشی کا اعلان کر دیا۔

نجم سیٹھی کا یہ اعلان اس وقت سامنے آیا جب بورڈ کو نئے انتخابات اور آئین کے نفاذ کے لیے ملی ہوئی مدت ختم ہو رہی تھی اور بورڈ کو نئے انتخابات کے لیے 21 جون سے پہلے عمل کرنا تھا۔

نجم سیٹھی 21 دسمبر 2022 کو جس طریقے سے ایک منتخب بورڈ کو ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے ختم کرکے پاکستان کرکٹ کے تمام تر اختیارات کے مالک بن گئے تھے اسی طرح وہ نئے چئیرمین کے انتخاب کی دوڑ سے باہر ہوگئے ہیں۔

بورڈ کے چیئرمین کے لیے گذشتہ چند ہفتوں سے دو حکومتی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیاں سرد جنگ جاری تھی۔ پی پی پی کا موقف یہ تھا کہ کرکٹ بورڈ وزارت بین الصوبائی رابطہ کے تحت آتا ہے اور یہ وزارت اتحادی حکومت میں پی پی پی کے پاس ہے لہذا بورڈ کے چیئرمین کا عہدہ بھی اسی کا حق ہے۔

نجم سیٹھی گذشتہ ایک ہفتہ میں وزیراعظم سمیت اہم حکومتی عہدیداروں سے ملاقاتیں کر چکے تھے لیکن پی پی پی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کو منانے میں ناکام رہے۔ نتیجہ میں انہیں اس دوڑ سے باہر ہونا پڑا۔

نجم سیٹھی نے ایک ٹویٹ میں عہدہ چھوڑنے کا اعلان کیا لیکن بیان بعض لوگوں کے مطابق کافی واضح سیاسی بیان تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ آصف زرداری اور شہباز شریف کے درمیان جھگڑے کی وجہ نہیں بننا چاہتے۔

’اس طرح کے عدم استحکام اور غیر یقینی صورت حال پی سی بی کے لیے اچھی نہیں ہے۔ ان حالات میں میں چیئرمین پی سی بی کا امیدوار نہیں ہوں۔ تمام اسٹیک ہولڈرز کو نیک خواہشات۔‘

پی پی پی کے وفاقی وزیر احسان مزاری کا موقف ہے کہ نجم سیٹھی کو صرف آئین کی بحالی اور نئے انتخابات کا ہدف دیا گیا تھا لیکن وہ خود ہی چیئرمین کے امیدوار بن بیٹھے جو معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔

تمام تر کوششوں اور مقتدرہ اداروں کی مداخلت کے باوجود وزیر اعظم پاکستان 75 سالہ نجم سیٹھی کو چیئرمین بنوانے میں ناکام رہے اور اب انہیں پی سی بی کے آئین کے تحت دس رکنی بورڈ آف گورنرز میں اپنی طرف سے دو نام بھیجنا ہوں گے جن میں سے ایک کو چیئرمین منتخب کرلیا جائے گا۔

پی پی پی نے اپنی طرف سے سابق چیئرمین ذکا اشرف کو نامزد کیا ہے جب کہ دوسرانام ممتاز وکیل مصطفی رمدے کا لیا جا رہا ہے جو بظاہر خانہ پری کے مترادف ہے۔ اس طرح خیال ہے کہ ذکا اشرف کو چیئرمین منتخب کر لیا جائے گا۔

چوھدری ذکا اشرف

ذکا اشرف پاکستان کے ایک معروف زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے والد مرحوم چوھدری اشرف مشہور کاروباری شخصیت اور سیاست دان تھے۔ وہ پیپلز پارٹی کی طرف سے 1977 کے انتخابات میں حیدر آباد سے حصہ لے چکے ہیں۔

بہاولپور میں پیدا ہونے والے 71 سالہ ذکا اشرف ایک سلجھے ہوئے، کم گو اور ملنسار شخص سمجھے جاتے ہیں، جن کی ساری زندگی اگرچہ زراعت اور صنعت میں گزری ہے۔ وہ متعدد شوگر ملوں اور دوسرے صنعتی اداروں کے مالک ہیں۔ جوانی سے وہ پی پی پی کے ہمنوا ہیں اور کیڈٹ کالج پٹارو میں ان کی دوستی سابق صدر آصف علی زرداری سے ہوئی تھی جو آج تک قائم ہے۔

اگرچہ ذکا اشرف براہ راست کسی بھی کھیل کی تنظیم سے وابستہ نہیں رہے لیکن صاحب حیثیت ہونے کے باعث ملک کے کئ سپورٹس کلبوں کی معاونت کرتے رہے ہیں۔

ان کی قسمت کا ستارہ پہلی مرتبہ اس وقت چمکا جب 2011 میں انہیں صدر پاکستان نے اعجاز بٹ کی جگہ چیئرمین کرکٹ بورڈ مقرر کر دیا۔ وہ اگرچہ براہ راست مقرر ہوئے تھے تاہم بورڈ آف گورنرز نے 2013 میں انہیں منتخب کرکے آئینی شکل دے دی۔

ان کا انتخاب اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج شوکت عزیز صدیقی نے ایک درخواست پر کالعدم قرار دے دیا تھا جس کے باعث انہیں عہدہ چھوڑنا پڑا تھا۔

اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے نجم سیٹھی کو نیا چیئرمین نامزد کر دیا تھا تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ نے جنوری 2014 میں شوکت عزیز صدیقی کا فیصلہ منسوخ کر کے ذکا اشرف کو دوبارہ چیئرمین برقرار رکھا تھا۔ ایک حکومتی معاہدہ کے تحت ذکا اشرف نے چند روز چیئرمین رہنے کے بعد عہدہ چھوڑ دیا تھا اور نجم سیٹھی دوبارہ چیئرمین بن گئے۔

نجم سیٹھی کے ساتھ ذکا اشرف کا تنازعہ نیا نہیں ہے اور دونوں ایک دوسرے کی کرسی کھینچتے رہے ہیں۔ اب جبکہ نجم سیٹھی حکومتی حمایت کے باوجود اپنا عہدہ نہیں بچاسکے ہیں ان کے لیے ہزیمت کی بات یہ ہے کہ ان کے پرانے حریف ان سے یہ جنگ جیتنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔

ذکا اشرف اپنے حریف کی برعکس دوسروں کے کام میں مداخلت کے قائل نہیں بتائے جاتے ہیں۔

زرعی ترقیاتی بینک اور دوسرے کئی صنعتی اداروں کی کامیاب قیادت کے باعث انہیں ایک زیرک اور ہوشیار منتظم سمجھا جاتا ہے۔ وہ باتوں سے زیادہ عملی اقدامات پر یقین رکھتے ہیں۔ 

ان کے گذشتہ ادوار میں کرکٹ بورڈ خاموش اور پرسکون انداز میں آگے بڑھتا رہا۔ ان کی سب سے بڑی کامیابی انڈیا کے ساتھ کرکٹ تعلقات تھے جب دسمبر 2012 میں پاکستان ایک مختصر سیریز کھیلنے پانچ سال بعد انڈیا پہنچا تھا۔  ان کا دور دوسرے چیئرمینوں کے برعکس تنازعات سے پاک تھا اور دوسرے کرکٹ بورڈز سے اچھے تعلقات تھے۔

اب جبکہ وہ ایک بار پھر پی سی بی کے سربراہ کے عہدے تک پہنچ گئے ہیں تو ان کے انتخاب میں اگر پی پی پی کا سخت موقف شامل حال رہا ہے تو ان کی متانت، سنجیدگی اور بردباری بھی اس میں شامل ہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کے پیشرو نجم سیٹھی اپنی صحافتی عادت کے باعث خبروں کا عنوان رہے جس سے ان کی ساکھ کو بہت نقصان پہنچایا۔

چیلنج

ذکا اشرف پر اب بہت بھاری ذمہ داریاں ہیں۔ اس وقت کرکٹ بورڈ وسائل کے باوجود بھرپور ڈومیسٹک سیزن کرانے میں ناکام رہا ہے جبکہ ایشیا کپ اور ورلڈ کپ کے تنازعات بھی سر پر کھڑے ہیں۔

نجم سیٹھی کی غلط حکمت عملی اور روز روز نت نئے بیانات نے پی سی بی کی ساکھ کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ وہ ان معاملات کو مناسب طریقے سے سنبھالنے میں ناکام رہے جبکہ ان کے دو معاونین نے بھی ان کو غلط مشورے دے کر نقصان پہنچایا۔ اسلام آباد کے ایک معاون نے تو بورڈ کو نانا جان کا گھر سمجھ لیا تھا اورتمام اہم فیصلوں میں دخل دیتے تھے۔

کیا ذکا اشرف اس ساری صورت حال سے نمٹ سکیں گے اور اپنی ایک نئی ٹیم بناسکیں گے؟ اس کا فیصلہ تو بہت جلد ہو جائے گا لیکن وہ اپنے دور کے بہت سے محنتی اور فعال مینیجرز کے ذریعے اپنی کامیاب ٹیم دوبارہ تشکیل دے سکتے ہیں۔ 

ذکا اشرف جنہیں لوگ قریب سے جانتے ہیں وہ اس بات کو بخوبی سمجھتے ہیں کہ وہ ایک اچھے اور دیانتدار منتظم ہیں۔ ان کی قیادت میں پی سی بی زیادہ بہتر انداز میں کام کرسکے گا۔

ملک میں جاری سیاسی کشیدگی میں ٹوئٹر صارف امجد خان نے تجویز دی کہ حکومت کو پی سی بی کے تین چیئرمین بنانے چاہیں۔

لیکن اس سال اکتوبر میں ممکنہ عام انتخابات کے نتیجے میں جو بھی پارٹی حکومت میں آتی ہے دیکھنا یہ ہے کہ وہ کیا انہیں کام جاری رکھنے کا کہے گی یا تبدیل کر دے گی۔

سپورٹس صحافی فیضان لاکھانی کا بھی ایک ٹویٹ میں کہنا تھا کہ اگر پی پی پی آئندہ انتخابات نہیں جیتی تو ملک کو ایک اور نیا چیئرمین دیکھنا ہوگا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ