نجم سیٹھی کا رمیز راجہ، احسان مانی دور سے موازنہ

نجم سیٹھی کے مطابق ان کے دور میں پاکستانی ٹیم نے چیمپئنز ٹرافی 2017 میں فتح حاصل کی جبکہ احسان مانی کے دوران میں سینکڑوں پاکستانی کرکٹر بے روزگار ہوئے اور رمیز راجہ کے دور میں ڈراپ ان پچز پر پچاس کروڑ لاگت کے منصوبے پر وقت ضائع کیا گیا۔

نجم سیٹھی کے مطابق ان کے دور میں پاکستان سپر لیگ متعارف کروائی گئی جس میں صرف فرینچائز کی فیس نو کروڑ ڈالر رکھی گئی جبکہ احسان مانی کے دور میں پی ایس ایل فائیو اور سکس کو ریکارڈ نقصانات کا سامنا رہا(اے ایف پی)

پاکستان کرکٹ بورڈ کے عبوری چیئرمین نجم سیٹھی نے بطور چیئرمین پی سی بی اپنے دور کا موازنہ سابق چیئرمین رمیز راجہ اور احسان مانی سے کیا ہے۔

نجم سیٹھی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک گوشوارہ پوسٹ کرتے ہوئے تینوں ادوار کا موازنہ کیا۔ جس کے مطابق نجم سیٹھی دور میں پاکستانی ٹیم کی ٹی ٹوئنٹی اور ون ٹیسٹ رینکنگ نمبر ون، ایک روزہ رینکنگ نمبر پانچ رہی جبکہ احسان مانی کے دور میں ٹیسٹ رینکنگ نمبر پانچ اور رمیز راجہ کے دور میں نمبر چھ رہی۔

اس طرح احسان مانی کے دور میں ایک روزہ رینکنگ نمبر چھ اور ٹی ٹوئنٹی کی رینکنگ نمبر چار رہی جبکہ رمیز راجہ دور میں ایک روزہ رینکنگ نمبر پانچ اور ٹی ٹوئنٹی رینکنگ نمبر تین رہی۔

نجم سیٹھی کے مطابق ان کے دور میں پاکستانی ٹیم نے چیمپئنز ٹرافی 2017 میں فتح حاصل کی جبکہ احسان مانی کے دوران میں سینکڑوں پاکستانی کرکٹر بے روزگار ہوئے اور رمیز راجہ کے دور میں ڈراپ ان پچز پر پچاس کروڑ لاگت کے منصوبے پر وقت ضائع کیا گیا۔

نجم سیٹھی کے مطابق ان کے دور میں پاکستان سپر لیگ متعارف کروائی گئی جس میں صرف فرینچائز کی فیس نو کروڑ ڈالر رکھی گئی جبکہ احسان مانی کے دور میں پی ایس ایل فائیو اور سکس کو ریکارڈ نقصانات کا سامنا رہا اور رمیز راجہ دور میں پاکستان جونیئر لیگ پر چالیس لاکھ ڈالر کا نقصان ہوا اور اس کی کوئی ٹیم بھی نہ بک سکی۔

گوشوارے کے مطابق نجم سیٹھی کے دور میں زمبابوے، آئی سی سی ورلڈ الیون، ویسٹ انڈیز اور سری لنکا کی ٹیمیں پاکستان آئیں جبکہ پی ایس ایل کے دو فائنل لاہور میں کھیلے گئے۔

جبکہ رمیز راجہ کے دور میں کھلاڑیوں اور کپتان کا سانس لینا محال کر دیا گیا اور تباہ شدہ پچوں پر میچ کھیلے گئے جبکہ رمیز راجہ کے دور میں چیئرمین کو تمام اختیارات دے دیے گئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دسمبر کے آخری ہفتے میں وزیراعظم پاکستان نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے موجودہ نافذالعمل آئین کو معطل کرکے 2014 میں نافذ کیے گئے آئین کی بحالی کرتے ہوئے 14 رکنی مینیجمنٹ کمیٹی تشکیل دی تھی جس کی سربراہی سابق چیئرمین نجم سیٹھی کر رہے ہیں۔

سابق چیئرمین رمیز راجہ نے اس اقدام پر سخت تنقید کرتے ہوئے اسے پولیس کے چھاپے سے تشبیہ دی تھی۔ ان کے مطابق انہیں اپنے دفتر سے ذاتی سامان تک نہیں لے جانے دیا گیا جبکہ صرف ایک شخص کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے پاکستان کرکٹ بورڈ کے پورے نظام کو تبدیل کر دیا گیا ہے۔

وزارت بین الصوبائی روابط کی جانب سے جاری نوٹیفیکیشن کے مطابق کمیٹی میں سابقہ گورننگ بورڈ کے چند ارکان کے ساتھ ساتھ سابق مینز کپتان شاہد آفریدی اور ویمنز کرکٹ ٹیم کی سابق کپتان ثنا میر بھی شامل ہیں۔

نجم سیٹھی کی جانب سے بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب ٹویٹ میں بین الصوبائی روابط ڈویژن کی سفارشات کو وفاقی کابینہ کی دی گئی منظوری کا عکس بھی صارفین کے ساتھ شیئر کیا۔ وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد کمیٹی کو آئینی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔

پی سی بی کا موجودہ سیٹ اپ اور آئین 2019 میں تشکیل دیا گیا تھا جس کے تحت چیف ایگزیکیٹو آفیسر کا عہدہ آئین کا حصہ بنایا گیا تھا جس سے بورڈ کے انتظامی امور کلی طور پر سی ای او کے پاس آگئے تھے۔ 

اس سے قبل 2014 کے آئین میں سی او او کا عہدہ تھا جبکہ زیادہ اختیارات چیئرمین کے پاس تھے۔ 

پی سی بی کے گزشتہ نافذالعمل آئین کی سب سے اہم بات چھ صوبائی کرکٹ بورڈز کے تین ارکان بورڈ آف گورنرز کے ممبر تھے جبکہ دو ارکان وزیر اعظم نامزد کرتے تھے اور تین ارکان آزاد حیثیت سے نامزد تھے جن کا تعلق کارپوریٹ اداروں سے تھا۔ اس آئین میں ڈپارٹمنٹل ٹیموں کا کردار ختم کردیا گیا تھا جبکہ 2014 کے آئین میں ڈپارٹمنٹل ٹیمیں بورڈ کا حصہ تھیں اور ان کے چار اراکین بورڈ آف گورنرز کا حصہ تھے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ