سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہوم میں ایک شہری نے عید کے موقع پر جامع مسجد کے باہر پولیس سے اجازت ملنے کے بعد قرآن کی بے حرمتی کرتے ہوئے اسے جلا دیا ہے۔
دو سو کے قریب لوگوں نے دو اشخاص کو یہ فعل کرتے دیکھا اور وہاں پر موجود کچھ لوگوں نے ’اللہ اکبر‘ کے نعروں سے اس فعل کی مخالفت کی جبکہ پولیس نے ایک شخص کو پتھر مارنے کی کوشش کے الزام میں گرفتار بھی کر لیا ہے۔
سویڈن کی پولیس نے اس سے پہلے دو بار قرآن مخالف احتجاج کی درخواست مسترد کی تھی مگر عدالت نے اسے آزادی اظہار رائے کے خلاف قرار دیتے ہوئے پولسی کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا تھا۔
مسجد کے ڈائریکٹر امام محمود خلفی نے بدھ کو پولیس کی جانب سے عید کے دن دی جانے والی اجازت پر افسوس کا اظہار کیا۔
خلفی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا: ’مسجد نے پولیس کو مشورہ دیا تھا کہ کم از کم اس احتجاج کو کسی اور جگہ منتقل کر دیا جائے اور اس کی گنجائش قانون میں موجود تھی مگر پولسی نے ایسا نہیں کیا۔‘
خلفی کے مطابق ہر سال اس مسجد میں عید کی نماز کے لیے 10 ہزار کے قریب نمازی آتے ہیں۔
ترکی نے رواں سال جنوری کے آخر میں سویڈن کے ساتھ اس کی نیٹو میں شمولیت پر جاری مذاکرات اس وقت روک دیے تھے جب سویڈن کے ایک انتہائی دائیں بازو کے سیاست دان نے سٹاک ہوم میں ترک سفارت خانے کے قریب قرآن کو نذر آتش کیا تھا۔
اس سے قبل سویڈش پولیس نے تحریری فیصلے میں کہا تھا کہ (مقدس کتاب) جلانے سے منسلک حفاظتی خطرات ’اس نوعیت کے نہیں تھے جو موجودہ قوانین کے تحت درخواست کو مسترد کرنے کے فیصلے کا جواز پیش کر سکیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم جنوری میں ترکی کے سفارت خانے کے باہر مسلمانوں کی مقدس کتاب کو نذر آتش کرنے کے نتیجے میں کئی ہفتوں تک مظاہرے ہوئے، ترکی میں سویڈن کی مصنوعات کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا گیا اور سویڈن کی نیٹو کی رکنیت کی کوشش کو دھچکا لگا۔
ماضی میں اس طرح کی کارروائیوں سے دنیا بھر میں پرتشدد مظاہروں نے جنم لیا تھا۔
پولیس نے دلیل دی تھی کہ جنوری کے احتجاج سے سویڈن ’حملوں کے لیے ایک بڑا ہدف‘ بن گیا تھا۔
بدھ کے مظاہرے کی درخواست اسی فرد نے دی ہے جن کی سابقہ درخواست کو مسترد کر دیا گیا تھا۔
پولیس نے بدھ کو کہا کہ انہوں نے امن برقرار رکھنے کے لیے ملک بھر سے نفری طلب کی ہے۔
اے ایف پی کے مطابق بدھ کی صبح پولیس کی متعدد کاریں مسجد کے قریب کھڑی تھیں۔
سویڈن کے سیاست دانوں نے قرآن کو نذر آتش کرنے پر تنقید کی تھی لیکن آزادی اظہار کے حق کا بھی ڈٹ کر دفاع کیا ہے۔
سعودی عرب نے سویڈن میں ایک انتہا پسند کے ہاتھوں قرآن کریم کے نسخے کو نذر آتش کیے جانے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔
سعودی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا: ’یہ نفرت انگیز اور بار بار کی جانے والی کارروائیاں کسی بھی جواز کے ساتھ قبول نہیں کی جا سکتیں، جو واضح طور پر نفرت، اور نسل پرستی کو ہوا دیتی اور رواداری، اعتدال پسندی اور انتہا پسندی کو مسترد کرنے کی اقدار کو پھیلانے کی بین الاقوامی کوششوں سے براہ راست متصادم ہونے کے علاوہ لوگوں اور ریاستوں کے درمیان تعلقات کے باہمی احترام کو مجروح کرتی ہیں۔‘