نگران حکومت اور موسمیاتی تبدیلی

نگران سیٹ اپ میں جتنی اہمیت معاشی حالت کو بہتر کرنے کے لیے دی گئی اتنی موسمیاتی تبدیلی کو نہیں دی گئی۔

18 ستمبر، 2022 کو بلوچستان کے ضلع جعفر آباد میں لوگ سیلابی پانی میں اپنا بچا کچا سامان لے جا رہے ہیں (اے ایف پی/ فدا حسین)

پاکستان میں نگران سیٹ اپ آ چکا ہے اور اس سیٹ اپ کے بارے میں مختلف آرا ہیں۔ یہ آزادی رائے ہے کہ ہر شخص اپنی رائے رکھے اور اس کو بیان کرنے میں نہ ہچکچائے۔

نگراں سیٹ اپ میں کئی بڑے بڑے نام ہیں جن کی کارکردگی ہم پہلے دیکھ چکے ہیں اور سراہا بھی ہے۔ تاہم زیادہ تر لوگ موسمیاتی تبدیلی کے نگران وزیر سے خوش نہیں۔

ہو سکتا ہے عمران خان کی حکومت ختم ہونے کے بعد اتحادی حکومت میں موسمیاتی تبدیلی کی وفاقی وزیر شیری رحمٰن نے اس وزارت کو اتنا بخوبی چلایا کہ وہ ایک پیمانہ بن گیا ہے۔

وزارت موسمیاتی تبدیلی نے پچھلی حکومت کی مدت ختم ہونے سے قبل موسمیاتی تبدیلی سے رونما ہونے والی مسائل اور ان کے اثرات کے حوالے سے نیشنل اڈاپٹیشن پلان مرتب کیا۔

اس میں کہا گیا کہ موسمیاتی تبدیلی کا اثر ہر ایک پر ایک جیسا نہیں ہو گا بلکہ یہ انفرادی فرد کو اور طریقے سے، کاروبار کو مختلف، کمیونٹی کو مختلف اور تنظیموں اور حکومتوں کو مختلف طریقے سے متاثر کرے گی۔

لیکن اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ نگران سیٹ اپ میں جتنی اہمیت معاشی حالت کو بہتر کرنے کے لیے دی گئی اتنی موسمیاتی تبدیلی کو نہیں دی گئی۔

موسمیاتی تبدیلی کو بھی اتنی ہی اہمیت دینی چاہیے تھی کیونکہ اس کے اثرات اور اس سے ہونے والے نقصانات مستقبل یا مستقبل قریب کی بات نہیں بلکہ یہ ہمارا حال ہے۔

گذشتہ سال ورلڈ بینک نے کہا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث پاکستان میں گرمی کی شدت اور سیلاب اس بات کا واضح عندیہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے پاکستان کو ترقیاتی پروگرام اور غربت میں کمی کرنے کی کوششوں میں مشکلات ہوں گی۔

موسمیاتی تبدیلی کے باعث آفات سے 1700 افراد جان گنوا بیٹھے جبکہ 80 لاکھ افراد بے گھر ہوئے۔

اس کے علاوہ ملک کو 30 ارب ڈالر کا انفراسٹرکچر، فصلوں اور مویشیوں کے کھونے سے معاشی نقصان ہوا۔  

ورلڈ بینک کی رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے ترقیاتی پروگرام اور پالیسیاں بنانی ہوں گی۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ شدید موسمیاتی تبدیلی، ماحولیاتی خرابی اور ہوا میں آلودگی سے پاکستان میں 2050 تک ملک کے جی ڈی پی میں 18 سے 20 فیصد کمی ہو سکتی ہے۔ یہ ایک بہت بڑا نمبر ہے جس سے ملک کی ترقی رک جائے گی۔ 

موسمیاتی تبدیلی ایسا خطرہ ہے جو اس وقت ہمیں درپیش ہے اور جو  آنے والی نسلوں کی زندگی تبدیل کر کے رکھ دے گی۔

یہ ایسا وقت ہے جب حکومت کو سنگینی سے اس سے نمٹنے اور اس کے اثرات کو کم سے کم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، اس سے پہلے ہم اس موڑ پر پہنچ جائیں جہاں سے واپسی کا راستہ نہ ہو۔

کارنیجی انٹرنیشنل کے مطابق بیسویں صدی کے وسط میں ملک میں ایک ڈگری سینٹی گریڈ موسم گرم ہونے کے باعث سالانہ فی کس آمدنی میں 1.4 فیصد کمی واقع ہوئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لیکن اس سے بھی تشویش ناک بات یہ کہ موسم میں شدت میں کمی بھی واقع ہو جائے تو اس سے فی کس آمدنی میں کمی برقرار رہتی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ ملکی معاشی کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ 

سائنس دانوں کا اتفاق ہے کہ انسانی سرگرمیوں کے باعث موسمیاتی تبدیلی اور ال نینیو مل کر دنیا کے کئی خطوں پر اس طرح اثر انداز ہو گا جو پہلے نہیں دیکھا گیا۔

امریکی نیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفیرک ایڈمنسٹریشن میں سینیئر تحقیق دان ڈاکٹر مائیک میک فیڈن کا کہنا ہے کہ اگر تاریخ کو دیکھا جائے تو ال نینیو ہر چار یا پانچ سال بعد آتا ہے اور وقت ہے کہ اب ال نینیو آئے۔ تاہم ایسا ال نینیو جو بہت شدت کا ہو ہر سال 10 سے 15 سال بعد آتا ہے۔

یہ بہت حیرت کی بات ہو گی کہ اگر اس سال آنے والا ال نینیو بہت زیادہ شدت کا ہو کیونکہ آخری بار شدت والا ال نینیو 2015 اور 2016 میں آیا تھا۔

پاکستان کے پاس آپشن ہے کہ آیا وہ اپنے وجود میں آنے کے سو سال بعد موسمیاتی تبدیلی کو مدنظر رکھتے ہوئے ماحول دوست اقدامات اٹھا کر معاشی کامیابی کی مثال بننا چاہتا ہے یا نہیں۔

ہمارا سیارہ 20 سال پہلے والا نہیں رہا اور موسمیاتی تبدیلی کے باعث اس میں تیزی سے تبدیلیاں آ رہی ہیں۔

آج کل کے شدید موسمیاتی واقعات کو دیکھیں تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث دنیا میں تبدیلی آ رہی ہے اور اس کا اثر مستقبل میں کیا ہو گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات