کیا نگران سیٹ اپ لمبا عرصہ چلے گا؟

انتخابات میں مردم شماری اور حلقہ بندیوں کی وجہ سے دو ماہ سے زیادہ تاخیر کے لیے آئین میں گنجائش ڈھونڈنی پڑے گی، جو قاضی فائز عیسی کے چیف جسٹس بننے کے بعد آسان کام نہیں ہو گا۔

نگران وزیر اعظم انوار الحق 14 اگست کو عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد سابق وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات کرتے ہوئے (حکومت پاکستان/ ایکس)

آخر کار نگران وزیراعظم کا فیصلہ ہو چکا ہے اور ہما ایسے شخص کے سر بیٹھا جن کا متوقع امیدواروں کی فہرست میں نام ہی نہیں تھا۔ اسحٰق ڈار اور جلیل عباس جیلانی جیسے مضبوط امیدواروں کے ہوتے ہوئے انوارالحق کاکڑ کی انٹری شاید خود ان کے لیے بھی حیرت انگیز تھی۔

بہرحال اب ایک جمہوری عمل کا آغاز ہو چکا ہے اور نگران وزیراعظم کے لیے سب سے بڑا چیلنج عام انتخابات کے شفاف اور بروقت انعقاد کو ہی ممکن بنانا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سابق حکومت کے جاتے جاتے انتخابات نئی مردم شماری پر کرانے کے فیصلے سے انتخابات اب نومبر میں نہیں ہو پائیں گے لیکن نون لیگ اور پیپلز پارٹی کو امید ہے کہ عام انتخابات فروری میں ہو جائیں گے اور ساتھ ہی یہ خدشات بھی کہ نگران سیٹ اپ لمبا چل سکتا ہے۔

دیکھنا یہ ہو گا کہ ان کی امید آئندہ چند ہفتوں میں بھی اسی طرح قائم رہتی ہے یا خدشات امیدوں پر حاوی ہو جائیں گے۔

انورالحق کاکڑ ایک ذہین اور منجھے ہوئے سیاست دان ہیں، ان کی نامزدگی پر اعتراضات بھی ہوئے کہ وہ باپ (BAP) کے رہنما ہیں جن کو اسٹیبلیشمنٹ کی سرپرستی حاصل رہی ہے۔ لیکن ایک جمہوری عمل کے ذریعے ان کی نامزدگی سابق وزیراعظم شہباز شریف اور قائد حزب اختلاف راجہ ریاض نے کی، ایسے میں اعتراض کی زیادہ گنجائش بنتی نہیں۔

البتہ بروقت اور شفاف انتخابات کے انعقاد میں کامیابی ہی ان کا انتخاب درست ثابت کرے گی۔ انتخابات میں تاخیر کے خدشات پر گذشتہ کالم ’الیکشن: خدشات کے سائے اب بھی منڈلا رہے ہیں‘ میں تحریر کر چکا ہوں۔

اہم سوال یہ ہے کہ کیا انتخابات بروقت یعنی نومبر میں ہو جائیں گے؟

اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ ’آئین یہی کہتا ہے اور ایسا ہونا بھی چاہیے۔‘ لیکن اب تک جتنے بھی اہم سٹیک ہولڈرز سے اس بارے میں گفتگو ہوئی اس بنیاد پر وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ عام انتخابات بروقت یعنی نومبر میں ہی ہوں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مردم شماری اور حلقہ بندیاں اور پھر ان پر اعتراضات ایسے معاملات ہیں جس سے عام انتخابات میں کم از کم آٹھ ہفتے کی تاخیر ہو سکتی ہے یعنی عام انتخابات اگلے برس فروری یا اس کے فوراً بعد تک جا سکتے ہیں۔‘

اس تحریر کے اگلے ہی روز سابق وزیراعظم شہباز شریف نے عام انتخابات نئی مردم شماری پر ہونے کا اشارہ دے کر انتخابات میں تاخیر کی تقریباً تصدیق کر دی۔

انوارلحق کاکڑ کے نگران وزیراعظم بننے کے بعد لمبی مدت کے نگران سیٹ اپ کی قیاس آرائیوں نے زور پکڑ لیا ہے۔ کچھ ذرائع تو مصر ہیں کہ دو سال کا منصوبہ تیار ہو چکا ہے۔ لیکن معاملہ یہ ہے کہ انتخابات میں اگر مردم شماری اور حلقہ بندیوں کی وجہ سے دو ماہ سے زیادہ تاخیر مقصود ہو (یعنی فروری کے بعد) تو آئین میں اس کی گنجائش ڈھونڈنی پڑے گی جو قاضی فائز عیسی کے چیف جسٹس بننے کے بعد آسان کام نہیں ہو گا۔

اس وقت ن لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں نگران سیٹ اپ کے مکمل ہونے اور اس کے بعد اس کے اثرات کا انتظار کر رہے ہیں لیکن حکومت ختم ہونے کے بعد ان کے خدشات بڑھ چکے ہیں۔

انوار الحق کاکڑ، شہباز شریف اور راجہ ریاض کے تعینات کردہ نگران وزیراعظم ضرور ہیں لیکن سابق نواز شریف کا کوئی خاص ردعمل سامنے نہیں آیا۔ اسی طرح پیپلز پارٹی بھی بہت سے معاملات پر خاموش ہے۔ سردار اختر مینگل نے ان کی کھل کر مخالفت بھی کر دی۔

آئندہ آنے والے چند ہفتوں سے یہ واضح ہو جائے گا کہ سابق اتحادی حکومت میں شامل جماعتوں کی سیاست کس کروٹ بیٹھے گی۔ کیا ان کے لیے سختیاں بڑھ سکتی ہیں؟ اس کا سوال کا جواب فی الحال نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کے پاس ہی ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کے ذاتی خیالات اور تجزیے پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر