الیکشن: خدشات کے سائے اب بھی منڈلا رہے ہیں

نگران وزیراعظم کون بنے گا، کیا انتخابات نومبر میں اپنے وقت پر ہوں گے اور کیا ایک لمبے عرصے کی نگران حکومت لانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں؟ مختلف سٹیک ہولڈرز سے گفتگو پر مبنی کچھ حقائق اور تجزیہ ان سطور میں سامنے رکھنے کی کوشش کروں گا۔

17 جولائی 2022 کی اس تصویر میں پنجاب اسمبلی کی 20 نشستوں کے ضمنی انتخاب سے قبل انتخابی افسران لاہور کے ایک مرکز میں ووٹنگ کا سامان لے جا رہے ہیں (اے ایف پی)

موجودہ حکومت 11 دن بعد رخصت ہو رہی ہے اور آئین کے عین مطابق 90 دن یعنی 12 نومبر تک عام انتخابات کا انعقاد ہونا ہے۔

ویسے آئین کو جہاں سے بھی پرکھا اور پڑھا جائے یہ معاملہ سیدھا سیدھا ہے کہ حکومت کی رخصتی کے بعد وزیراعظم اور قائدِ حزبِ اختلاف کی مشاورت سے آنے والے نگران وزیراعظم 90 روز میں شفاف انتخابات کا انعقاد یقینی بنا کر اقتدار نئی حکومت کے سپرد کر دیں گے۔

لیکن اس کے باوجود شہر اقتدار میں گذشتہ کئی ہفتوں سے کچھ ایسے خدشات اور سوالات گردش کر رہے ہیں جن کے جواب سیاست دانوں سے لے کر صحافی سبھی تلاش کر رہے ہیں۔

نگران وزیراعظم کون بنے گا، کیا انتخابات نومبر میں اپنے وقت پر ہوں گے اور کیا ایک لمبے عرصے کی نگران حکومت لانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں؟

مختلف سٹیک ہولڈرز سے گفتگو پر مبنی کچھ حقائق اور تجزیہ ان سطور میں سامنے رکھنے کی کوشش کروں گا۔

نگران وزیراعظم کے لیے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا نام چلا اور میرے ساتھ ہونے والے تفصیلی انٹرویو میں انہوں نے اس بات کی تردید نہیں کی۔

گو کہ ان کے نام پر تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور خود ان کی اپنی جماعت کے اندر سے شدید تنقید سامنے آئی کہ وہ کیسے ایک نیوٹرل وزیراعظم ثابت ہو سکتے ہیں، اتحادی جماعتوں کی اس رائے میں بھی وزن ہے کہ عام انتخابات کی شفافیت پر پہلے ہی انگلی اٹھ جائے گی۔

حقیقت یہ ہے کہ نگران وزیراعظم نے ملکی معیشت کو لے کر کئی اہم فیصلے کرنے ہیں اور الیکشن ایکٹ کے سیکشن 230 میں ترامیم بھی اسی وجہ سے کی گئیں۔

اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ نگران وزیراعظم کا فیصلہ میاں نوازشریف کی رضامندی کے بغیر ناممکن ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ معیشت پر دسترس رکھنے والے اسحاق ڈار نوازشریف کے سب سے زیادہ بااعتماد اور انتہائی قریبی ساتھی سمجھے جاتے ہیں۔

چاہے کچھ بھی ہو جائے موجودہ اسٹیبلشمنٹ کسی بھی وجہ سے ملکی معیشت پر مزید آنچ نہیں آنے دینا چاہتی۔ ان تمام حقائق کو مدنظر رکھ کر جواب آپ خود ہی تلاش کر لیں۔

ان تمام حقائق کے پیش نظر ابھی بھی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو نگران وزارت عظمیٰ کے ایک مضبوط امیدوار کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

نگران وزارت عظمیٰ کے لیے کئی اور نام بھی چل رہے ہیں، دیکھتے ہیں کس کے نام کا قرعہ نکلتا ہے۔

دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ کیا انتخابات بروقت یعنی نومبر میں ہو جائیں گے؟

اس کا سیدھا سیدھا جواب یہ ہے کہ ’آئین یہی کہتا ہے اور ایسا ہونا بھی چاہیے۔‘ لیکن اب تک جتنے بھی اہم سٹیک ہولڈرز سے اس بارے میں گفتگو ہوئی اس بنیاد پر وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ عام انتخابات بروقت یعنی نومبر میں ہی ہوں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مردم شماری اور حلقہ بندیاں اور پھر ان پر اعتراضات ایسے معاملات ہیں جس سے عام انتخابات میں کم از کم آٹھ ہفتے کی تاخیر ہو سکتی ہے یعنی عام انتخابات اگلے برس فروری یا اس کے فوراً بعد تک جا سکتے ہیں۔

کیا نگران سیٹ اپ طویل المدتی ہو گا؟ فی الحال ایسا ہونے کے زمینی حقائق اور شواہد نہ ہونے کے برابر ہیں لیکن پاکستان میں ایسے تجربات پہلے ہو چکے ہیں اس لیے اسے مکمل تو کبھی بھی رد نہیں کیا جا سکتا البتہ اس بات کے امکانات ہیں کہ نگران سیٹ اپ تین ماہ کی بجائے پانچ ماہ تک معاملات چلاتا رہے۔

موجودہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے ناقدین یہ نکتہ بھی بار بار اٹھا رہے ہیں کہ عام انتخابات کے نتیجے میں ایک اور ہائبرڈ نظام کی تیاریاں ہو چکی ہیں۔

اس سلسلے میں بھی کچھ حقائق سامنے رکھ دیتے ہیں۔ مقتدر حلقے اس بات کا اٹل فیصلہ کر چکے ہیں کہ ملکی معیشت پر اب کسی کو سیاست کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور چاہے وہ فوج کو ’تقسیم کرنے کی منظم سازش‘ تھی یا کہ ملک میں پولرائزیشن کی، اس میں جو بھی گروہ یا شخص ملوث پایا گیا وہ ناقابل معافی ہے اور فی الحال ان کے ساتھ چلنا تقریباً ناممکن۔

نوشتہ دیوار یہ ہے اب اس ماڈل میں جو بھی جماعت فٹ آئے وہی آگے چل پائے گی۔

اب قارئین کی مرضی کہ اسے نیو ہائبرڈ نظام سمجھیں یا کہ ایک ایسا جمہوری نظام جس میں ان معاملات پر ’نو کمپرومائز‘ اور ’زیرو ٹالرنس‘ کی پالیسی ہو گی۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر