انتخابات ڈیجیٹل مردم شماری کے تحت ہوں گے: وزیراعظم شہباز شریف

ویزراعظم شہباز شریف نے ایک ٹی وی ٹاک شو میں عندیہ دیا ہے کہ ملک میں آئندہ انتخابات سال رواں کے دوران ہونے والی پہلی ڈیجیٹل مردم شماری کے مطابق ہوں گے۔

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ مردم شماری کے نتائج کو حتمی شکل دیے جانے کے فوراً بعد سی سی آئی کو بھیج دیے جائیں گے (شہباز شریف فیس بک)

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان میں آئندہ عام انتخابات ملک میں سال رواں (2023) کے دوران ہونے والی ڈیجیٹل مردم شماری کی بنیاد پر ہوں گے اور مردم شماری کے نتائج کی منظوری دینے والے ادارے مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کا اجلاس منعقد ہونے کے بہت زیادہ امکانات ہیں۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے یہ بات آج نیوز کے منگل کی رات نشر کیے گئے ٹاک شو ’فیصلہ آپ کا وِد عاصمہ شیرازی‘ میں کہی۔

پاکستان کے وفاقی سطح پر پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت، جس کے وزیراعظم شہباز شریف سربراہ ہیں، آئندہ مہینے (اگست میں) ملک کی باگ ڈور نگراں انتظامیہ کے حوالے کرنے کا عندیہ دے چکی ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا: ’ہمیں نئی مردم شماری کی بنیاد پر انتخابات کرانا ہوں گے … جب مردم شماری کرائی جائے تو اس کی بنیاد پر (انتخابات) کرائے جائیں، اگر کہ کوئی ایسی رکاوٹ نہ ہو جسے دور نہیں کیا جا سکتا۔

’لیکن مجھے (ایسی کوئی رکاوٹ) نظر نہیں آرہی۔‘

انہوں نے کہا کہ مردم شماری کے نتائج کو حتمی شکل دیے جانے کے فوراً بعد سی سی آئی کو بھیج دیے جائیں گے۔  

انتخابات میں تاخیر کے امکان سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے، تاہم ساتھ ہی لقمہ دیا کہ ’گیند الیکشن کمیشن کے کورٹ میں ہوگی۔‘

وزیر اعظم شہباز کا بیان ان کے وزرا کے سابقہ دعووں سے انحراف ہے، جن میں انہوں نے کہا تھا کہ آئندہ الیکشن 2017 کی مردم شماری کی بنیاد پر کرائے جائیں گے۔

تاہم اس فیصلے پر حکومت کی حلیف جماعت متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے سخت ردعمل کا اظہار کیا تھا۔ ایم کیو ایم کا کہنا ہے کہ نئی مردم شماری میں کراچی کی آبادی کو کم شمار کیا گیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وزیر اعظم شہباز نے یہ بھی کہا کہ 12 اگست سے پہلے اسمبلیاں تحلیل ہو جائیں گی۔

پاکستان کی موجودہ قومی اسمبلی کی پانچ سالہ مدت کا آغاز تحت 12 اگست 2018 کو ہوا تھا اور اس سال (2023 میں) اسی تاریخ کو مکمل ہو گا۔  

آئین کے آرٹیکل 224 کے مطابق قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی کے عام انتخابات مذکورہ اسمبلی کی تحلیل کے بعد 60 دن کے اندر کرائے جائیں گے، جبکہ وقت سے قبل تحلیل ہونے کی صورت میں آرٹیکل 224(2) کے تحت انتخابات 90 دن کے اندر کرانا ہوتے ہیں۔  

وزیراعظم شہباز شریف نے امید ظاہر کی کہ نگران وزیراعظم کے سلسلے میں حکومتی اتحادی ایک ایسے نام پر متفق ہوں گے جو نگران حکومت کی ضروریات کو پورا کرنے اور پاکستان کی معاشی ترقی کو آگے بڑھانے کا اہل ہو۔

مسلم لیگ نواز کے رہنما اور وفاقی وزیر احسن اقبال کا کہنا تھا کہ اگر نئی مردم شماری کے نتائج مکمل ہو آجاتے ہیں اور نوٹیفائی کر دیے جاتے ہیں تو پھر قانون کے تحت الیکشن کمیشن کو اس نئی مرمدم شماری کے تحت حلقہ بندی کرنا ہوتی ہے۔ 

’اور اگر ایسا نہیں ہوتا اور مردم شماری کے نتائج نہیں آتے تو پھر پرانی مردم شماری کے مطابق انتخابات اپنے وقت پر ہوں گے۔‘

انہوں نے کہا کہ 2017 میں بھی ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہوا تھا، جب مردم شماری کا پروویشنل نتیجہ آگیا تھا اور کچھ لوگ سپریم کورٹ گئے کہ نئی مردم شماری کے مطابق انتخابات ہو۔ ’اور پھر حکومت نے ایک آئینی ترمیم کے ذریعے پرانی مردم شماری کے تحت انتخابات کروائے تھے۔‘

اس سوال کے جواب میں کہ اب ایوان کے نامکمل ہونے کے باعث آئینی ترمیم ممکن نہیں ہے انہوں نے کہا کہ اس کا حتمی فیصلہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کرنا ہو گا۔

انڈپینڈنٹ اردو کے نامہ نگار عمر فیضان کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سابق سیکرٹری کنور دلشاد نے انڈیپنڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہـہ پہلے تو مشترکہ مفادات کونسل، جس میں چاوروں صوبوں کے وزرا اعلی شامل ہوتے ہیں اور وزیر اعظم کے زیر صدارت منعقد ہوتی ہے، میں ڈیجیٹل مردم شماری کا نوٹیفکیشن جاری ہو گا اور اگر یہ ممکن نہ ہوا تو الیکشن کمیشن پرانی حلقہ بندیوں پر الیکشن کرانے کا مجاز ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ بادی النظر میں اس پر اتفاق ہوتا دکھائی نہیں دے رہا، کیوں کہ سندھ اور بلوچستان کی حکومتوں کو اس پر شدید تحفظات ہیں۔

کنور دلشاد کا کہنا تھا کہ ’وزیر اعظم نے اپنی رائے دی ہے مگر ہماری اطلاعات کے مطابق ایک دو دن میں مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس ہونا ہے اور مشترکہ مفادات کونسل کی صوابدید ہے کہ اس پر فیصلہ کرے۔


انہوں نے بتایا اگر نوٹیفکیشن ہو جاتا تو نئی حلقہ بندیوں پر چار ماہ کا عرصہ لگے گا اور کچھ وقت کے لیے الیکشن تاخیر کا شکار ہو سکتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست