نئی مردم شماری کا نوٹیفیکشن جاری نہ کرنے سے آئینی بحران؟

مردم شماری رپورٹ کی منظوری اور وفاقی حکومت کی جانب سے نوٹی فیکیشن کی صورت میں آئینی بحران کا خدشہ ہے۔

12  اگست کو قومی، سندھ اور بلوچستان اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد نگران انتظامیہ مکمل ہو جائے گی اور الیکشن کمیشن آف پاکستان فوری طور پر آئندہ عام انتخابات کا شیڈول جاری کر دے گا (اے ایف پی)

وفاقی حکومت نئی مردم شماری کا گزٹ نوٹیفیکیشن جاری نہیں کر رہی ہے جب کہ اس کے نتائج پر مبنی رپورٹ مکمل طور پر تیار ہو چکی ہے، لہٰذا آئینی بحران کے اثرات سے عام انتخابات التوا کا شکار ہو سکتے ہیں۔

نئی مردم شماری کے حوالہ سے اہم فیصلہ کرنے کے لیے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس 25 جولائی کو طلب کرنے کا فیصلہ موجودہ حکومت کے اختتام پذیر ہونے سے پہلے مشترکہ مفادات کونسل کا پہلا اجلاس متوقع ہے۔

اجلاس میں نئی مردم شماری کے نتائج اور رپورٹ کا جائزہ لیا جائے گا۔ صوبائی حکومتیں نئی مردم شماری کے نتائج پر موقف پیش کریں گی اور مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں نئی مردم شماری کی رپورٹ کی منظوری کا امکان ہے۔

مردم شماری رپورٹ کی منظوری اور وفاقی حکومت کی جانب سے نوٹی فیکیشن کی صورت میں آئینی بحران کا خدشہ ہے۔

اسمبلیوں کی نشستوں کی تعداد میں رد و بدل کے لیے آئین میں ترمیم کرنا پڑے گی اور آئین کے آرٹیکل 51 (3) میں ترمیم کے لیے حکومت دو تہائی کی اکثریت سے محروم ہے۔

 لہٰذا مشترکہ مفادات کونسل کی رپورٹ اور فیصلہ کے بعد ہی نئی مردم شماری کے نتائج پر مبنی گزٹ نوٹیفیکیشن کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔

 مشترکہ مفادات کونسل ہی پرانی مردم شماری پر مبنی حلقہ بندیوں پر انتخابات کرانے کا فیصلہ کرے گی۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے فیصلہ کیا ہے کہ پرانی حلقہ بندیوں پر ہی عام انتخابات کا انعقاد کیا جائے جو پانچ اگست 2022 کو حتمی طور پر منظور کر کے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے گزٹ نوٹیفیکیشن کر دیا تھا۔

اگر نئی مردم شماری کے نتائج سرکاری طور پر گزٹ کر دیے تو پھر الیکشن کمیشن آئین کے آرٹیکل 51(5) کے تحت نئی حلقہ بندیاں کروانے کا مجاز ہو گا اور اسی کے لیے ساڑھے چار ماہ درکار ہوں گے اور اگر 12 اگست کو قومی اسمبلی اور دونوں صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہو جاتی ہیں تو 11 اکتوبر سے پہلے انتخابات ہو جائیں گے۔

دیگر صورت میں قبل از وقت قومی اسمبلی اور دونوں صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہو جاتی ہیں تو پھر آئین کے آرٹیکل 224 اور 224 (اے) کے تحت 90 روز میں انتخابات ہوں گے۔

انتخابی اصلاحات کمیٹی کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 60 سے زائد سفارشات دی تھیں اور میری اطلاع کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان کی تمام سفارشات کو تسلیم کر لیا گیا ہے۔

فی الحال باضابطہ سفارشات کی منظوری کا انتظار ہے اور ممکن ہے کہ قومی اسمبلی کی تحلیل سے پہلے انتخابی اصلاحات کا بل منظور کر کے صدر مملکت کو بھجوا دیا جائے۔

انتخابی عمل کو صاف شفاف اور غیر جانبدارانہ کرانے کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے باضابطہ طور پر ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کو رجسٹرار آفس کے ذریعے ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسران اور ریٹرننگ آفیسران کی خدمات مستعار کرنے کے لیے استدعا کی ہے۔ بصورتِ دیگر پھر انتظامیہ کے آفیسران کا تقرر کیا جائے گا۔

قومی اسمبلی کے لیے ریٹرننگ آفیسران 266 اور ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے پانچ فیصد آزاد کوٹہ مدنظر رکھنا ہو گا۔

اسی طرح صوبائی اسمبلیوں کے لیے پنجاب سے 277، سندھ سے 130، خیبر پختونخواہ سے 115 اور بلوچستان کے لیے 51 ریٹرننگ آفیسران کی خدمات حاصل کرنا ہوں گی کیونکہ ملک میں تقریباً 130کے لگ بھگ اضلاع ہیں تو اس تناسب سے 130 یا اس سے زائد ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسران کی خدمات حاصل کی جائیں گی۔

قومی سمیت چار میں سے دو صوبائی اسمبلیوں کی آئینی مدت 12اگست 2023 کو پوری ہونے جا رہی ہے اس صورت میں آئین کے آرٹیکل 224 (1) کے مطابق 12اکتوبر تک اور اگر قبل از وقت قومی اسمبلی سمیت دو صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کر دیا جاتا ہے تو 90 دن میں عام انتخابات کا انعقاد ضروری ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آئین کے آرٹیکل 224 (1) کے تحت اس مدت میں اضافہ اس صورت میں ممکن ہے کہ اسمبلیاں مدت پوری ہونے سے قبل تحلیل کر دی جائیں۔

مجموعی صورت حال کے تناظر میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے مقررہ مدت میں انتخابات کرانے کا عزم کا اظہار کر دیا ہے۔

 لیکن اہم فیصلہ مشترکہ مفادات کونسل کے اہم ترین اجلاس میں کیا جائے گا اگر فیصلہ ہی کروایا گیا کہ نئی مردم شماری کے گزٹ کو آئین کے آرٹیکل 51(5) کے تحت نافذ کر دیا جائے تو الیکشن کمیشن اف پاکستان کو ازسرِنو حلقہ بندیوں کے لیے چار سے پانچ ماہ درکار ہوں گے۔

لیکن بلوچستان میں آبادی میں غیر معمولی اضافہ کو مدنظر رکھتے ہوئے صوبہ بلوچستان کی قومی اسمبلی کی نشستیں بڑھانی پڑیں تو آئین کے آرٹیکل 51(3) میں ترمیم کرنا ہو گی جب کہ موجودہ حکومت دو تہائی اکثریت سے محروم ہے۔

اگر بلوچستان کے صوبے کی آبادی کے تناسب میں تین نشستیں مختص نہ کی گئیں تو یہ عمل حلقہ بندی اور آئین کے خلاف تصور کیا جائے اور اسے کسی بھی اعلیٰ عدالت میں بالخصوص بلوچستان ہائی کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کر کے الیکشن موخر ہو سکتے ہیں۔

اس کے برعکس اعلیٰ عدالت بھی پرانی مردم شماری اور پانچ اگست 2022 کی حلقہ بندیوں کو تسلیم کر کے الیکشن بروقت کروانے کا فیصلہ دے سکتی ہے۔

بروقت، غیر جانبدارانہ اور شفاف انتخابات کا انعقاد جمہوری نظام کا سب سے بڑا بنیادی تقاضا ہے اس حوالے سے حالیہ دنوں میں پائے جانے والے شکوک و شبہات کا ہونا نئی بات نہیں بلکہ یہ اس سے پہلے بھی گذشتہ 20 سالوں میں ہونے والے انتخابات میں سامنے آ چکی ہیں۔

جس کی بڑی وجہ غیر جمہوری دور میں پروان چڑھنے والی روایت ہے جو اب دم توڑ چکی ہے البتہ وقت کا تقاضا ہے کہ عام حلقے اپنے اندر مثبت جمہوری سوچ پیدا کریں اور عام انتخابات کے عمل کو تمام خامیوں سے پاک کرنے کی آئین کے آرٹیکل 218 (3) کے تحت کوشش کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر