صوبہ سندھ کی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے انتخابات سے قبل درست مردم شماری، نئی حلقہ بندیوں اور ووٹر فہرستوں کی ازسر نو تیاری سے متعلق مطالبے کو غیر قانونی قرار دیا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور سندھ کے صوبائی وزیر سعید غنی نے ایم کیو ایم پاکستان کے مطالبے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ایم کیو ایم پاکستان اپنے ووٹرز کو خوش کرنے کے لیے سیاست کرتے ہوئے ایسے اعلانات کر رہی ہے۔
پیر کو کراچی میں ایم کیو ایم رہنماؤں ڈاکٹر فاروق ستار، مصطفی کمال کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے کہا تھا کہ کراچی کی آبادی تین کروڑ سے زیادہ ہے اور اس سے کم کا کوئی نمبر انہیں قابل قبول نہیں ہو گا۔
خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ وہ عام انتخابات میں تاخیر نہیں چاہتے تاہم مطالبہ کرتے ہیں کہ انتخابات فوری اور شفاف ہونے چاہیں، مگر اس سے پہلے درست مردم شماری ہو، پھر اس کی بنیاد پر نئی حلقہ بندیاں اور ووٹر فہرستیں تیار کی جائیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے سعید غنی نے کہا: ’ایم کیو ایم پاکستان اس وقت کیوں خاموش تھی، جب مردم شماری ہو رہی تھی یا اس کے نتائج کا اعلان کیا جا رہا تھا؟ اس وقت سب سے زیادہ احتجاج وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے کیا تھا۔
’یہ اعداد و شمار سرکاری ہیں۔ کسی کے مطالبے پر کسی شہر کی آبادی کو بڑھا کر یا کم کرکے نہیں دکھایا جاسکتا ہے۔
’اگر میں کہوں کہ صوبہ سندھ کی آبادی 15 کروڑ ہے تو یہ صرف ایک بات ہی ہو گی۔ میرے کہنے سے صوبے کی آبادی بڑھائی نہیں جا سکتی۔ اب اس پر اگر ایم کیو ایم پاکستان بولے کہ اگر کراچی کی آبادی کو بڑھایا جائے ورنہ وہ الیکشن کو نہیں مانیں گے تو یہ بات مناسب نہیں ہے۔‘
سعید غنی کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم انتخابات کا بائیکاٹ ہرگز نہیں کرے گی اور ایسے بیانات صرف اپنے ووٹرز کو خوش کرنے کے لیے دیے جا رہے ہیں۔‘
ایم کیو ایم پاکستان نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ مردم شماری میں کراچی کی آبادی کو کم دکھا کر ناانصافی کی گئی ہے، جس پر وہ احتجاج جاری رکھے گی۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ایم کیو ایم (پاکستان) کے مرکزی رہنما سید امین الحق نے کہا کہ یہ ان کی جماعت کا سادہ سا مطالبہ ہے کہ پہلے شفاف مردم شماری کرائی جائے، جس کے بعد نئی حلقہ بندیاں اور ووٹر فہرستیں ترتیب دینے کے بعد انتخابات کرائے جائیں۔
سید امین الحق کے مطابق: ’اگر ہم یورپ کی مثال نہ بھی لیں، مگر برصغیر کے مختلف شہروں بشمول دہلی، کلکتہ، ڈھاکا کی شہری آبادیوں میں اضافہ ہوا ہے، جبکہ کراچی واحد شہر ہے جس کی آبادی کم ہوئی۔ کراچی کی آبادی تین کروڑ ہے۔ ہم اس سے کم آبادی کو نہیں مانتے۔
’ابتدا میں کراچی کی آبادی ایک کروڑ 33 لاکھ ظاہر کی گئی مگر جب ایم کیو ایم نے احتجاج کیا تو اسے بڑھا کر ایک کروڑ 90 لاکھ کر دیا گیا۔ اس لیے ایم کیو ایم اپنا مطالبہ جاری رکھے گی۔‘
سید امین الحق نے مطالبہ قبول نہ ہونے کی صورت میں انتخابات کے بائیکات سے متعلق سوال پر کہا: ’ہم کسی صورت عام انتخابات کا بائیکاٹ نہیں کریں گے، بلکہ ہم نے تو کراچی، حیدرآباد، میرپور خاص سمیت اپنے حلقوں میں ابھی سے الیکشن مہم کا آغاز کر دیا ہے۔ اگر ہمارا مطالبہ نہیں مانا گیا تو ہم پارلیمنٹ سمیت سڑکوں پر پرامن احتجاج جاری رکھیں گے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انتخابات کی رپورٹنگ پر مہارت رکھنے والے کراچی کے صحافی اور تجزیہ نگار عبدالجبار ناصر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ایسا مطالبہ کرتے ہوئے ایم کیو ایم کو بھی اندازہ ہے کہ یہ پورا نہیں ہو سکتا۔
عبدالجبار ناصر کے مطابق: ’ایم کیو ایم کے پاس کوئی اور ایشو نہیں ہے، اس لیے وہ انتخابات سے قبل سیاست کو سرگرم رکھنا چاہتی ہے اور اسی لیے مسلسل یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے۔‘
پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور تجارتی مرکز کراچی کی مردم شماری کے اعداد و شمار کو لے کر ایم کیو ایم سمیت مختلف سیاسی پارٹیاں نتائج کو قبول نہ کرتے ہوئے احتجاج کر رہی ہیں۔
ایم کیو ایم سمیت تمام سیاسی جماعتوں کا دعویٰ ہے کہ ’کراچی شہر کی آبادی کو کم ظاہر کیا گیا ہے۔‘
وفاقی ادارہ شماریات نے اپریل 2023 میں ساتویں اور پہلی ڈیجیٹل مردم شماری کے اعداد و شمار جاری کیے ہیں، جن کے مطابق کراچی کی آبادی ایک کروڑ 74 لاکھ بتائی گئی ہے، جس پر نہ صرف ایم کیو ایم بلکہ جماعت اسلامی اور دیگر سیاسی جماعتوں نے احتجاج کرنے کے ساتھ عدالت سے بھی رجوع کیا ہے۔
ایم کیو ایم نے جب پاکستان تحریک انصاف حکومت سے علیحدگی اختیار کی اور پی ڈی ایم کی حکومت کا حصہ بنی تو اس نے دیگر مطالبات کے علاوہ دوبارہ مردم شماری اور کراچی میں گنتی پوری کرنے کا مطالبہ بھی رکھا تھا۔
ان مطالبات پر عمل نہ ہونے کے باعث ایم کیو ایم کئی بار حکومتی اتحاد سے علحیدگی کے اعلانات بھی کر چکی ہے۔