وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ خان نے کہا ہے کہ حکومت نے نئی مردم شماری کے نتائج عام نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور آئندہ عام انتخابات پرانی مردم شماری کے مطابق ہوں گے۔
جیو نیوز کے پروگرام ’نیا پاکستان‘ میں ہفتے کی رات گفتگو کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ’اگر اسمبلیوں کی تحلیل کے دن تک مردم شماری کو نوٹیفائی نہ کیا گیا تو الیکشن پرانی حلقہ بندیوں اور پرانی مردم شماری کی بنیاد پر ہوں گے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ کہ نئی مردم شماری کے نتائج شائع نہیں کرے گی اور جب اسمبلیاں اپنی مدت پوری کرکے تحلیل ہوں گی تو الیکشن کمیشن پابند ہوگا کہ وہ پرانی مردم شماری کی بنیاد پر الیکشن کروائے۔‘
وزیر داخلہ نے اپنی بات کو دہراتے ہوئے کہا کہ ’جب تک باقاعدہ نوٹیفائی نہ ہو، جو کہ حکومت نے کرنا ہے اور آئینی و قانونی طور پر اس دن سے پہلے کرنا ہے جب اسمبلیاں تحلیل ہوتی ہیں تو جب وہ حکومت نہیں کر رہی کیونکہ اس (مردم شماری) میں مسائل ہیں تو یہ ایسا نہیں ہے کہ ہم شوق سے نہیں کر رہے، اس میں مسائل پیدا ہوگئے ہیں اور بہت سارے سٹیک ہولڈرز کو اس پر اعتراض ہیں۔‘
ادارہ برائے شماریات کی جانب سے پاکستان کی ڈیجیٹل مردم شماری کے مئی 2023 میں جاری کیے گئے ابتدائی نتائج میں انکشاف کیا گیا تھا کہ ملک کی آبادی 24 کروڑ 95 لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے، تاہم متحدہ قومی موومنٹ، پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے ان نتائج پر اعتراض اٹھایا تھا۔
بقول رانا ثنا اللہ: ’وہ (حکومت) مردم شماری (کے نتائج) نوٹیفائی نہیں کر رہی، تو جب حکومت نوٹیفائی نہیں کرے گی اور اسمبلیاں اپنی مدت پوری کرکے تحلیل ہوجائیں گی تو الیکشن کمیشن پابند ہے کہ جو بھی حلقہ بندیاں موجود ہیں، جیسی بھی ہیں، اس کے مطابق الیکشن کروائے۔‘
اس سوال پر حکومت کی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کا اصرار ہے کہ انتخابات نئی مردم شماری کے تحت کروائے جائیں جبکہ پیپلز پارٹی کو بھی اعتراض ہے؟ وزیر داخلہ نے جواب دیا: ’ایم کیو ایم کا بھی موقف یہی ہے۔ نئی مردم شماری سے ایم کیو ایم سب سے زیادہ غیر مطمئن ہے، اس لیے نئی مردم شماری کو وہ تسلیم نہیں کرتے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رانا ثنا نے مزید کہا کہ ’نئی مردم شماری پر اتفاق نہیں ہے، یہ معاملہ حل ہونا لازمی ہے۔ مردم شماری کے معاملے پر فوری طور پر کوئی فیصلہ ہونا ضروری ہے، اس کو ایسے انداز میں مکمل کرنا کہ سب کا اس پر اتفاق ہو، بڑا ضروری ہے۔ یہ وقت طلب ہے اور اس میں ٹائم لگے گا۔‘
وزیر داخلہ نے اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد نگران سیٹ اپ کے حوالے سے بھی بات کی اور کہا کہ اگست میں اسمبلیاں مدت پوری کرنے کے بعد نگران سیٹ اپ آئے گا اور اس کے بعد 60 یا 90 دن میں انتخابات کروائے گا۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ نگران وزیراعظم کے انتخاب کے لیے آئین کے طریقہ کار کے مطابق چلا جائے گا۔
بقول وزیر داخلہ: ’وزیراعظم کام کر رہے ہیں، جن ناموں پر وہ متفق ہوں گے، اس پر لیڈر آف اپوزیشن اور اتحادیوں سے مشاورت کریں گے۔ یہ عمل ہفتے دس دن میں مکمل ہوجائے گا۔‘
رانا ثنا اللہ نے پروگرام کے دوران یہ بھی کہا کہ ان کا ذاتی موقف ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن کو پنجاب میں کوئی سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہیں کرنی چاہیے۔