گلوبل وارمنگ: پاکستان کا انفراسٹرکچر اور نظریہ ضرورت

انفراسٹرکچر سے مراد وہ بنیادی انتظامی ڈھانچہ اور خدمات ہیں جو کسی ملک یا تنظیم کو آسانی اور سہولت سے چلانے کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔

25 مارچ 2020، کراچی میں تعمیر شدہ ایک فلائی اوور کا منظر جس کے پس منظر میں نوتعمیر شدہ عمارتوں کو دیکھا جا سکتا ہے(اے ایف پی/عارف حسن)

پچھلے  مضمون میں آپ سے وعدہ تھا کہ اپنے اس آخری مضمون میں پاکستان کے انفراسٹرکچر کے حوالے سے ذکر ہوگا کہ یہ اب تک کیسے نظریہ ضرورت کے تحت معرضِ وجود میں آتا رہا اور درحقیقت اسے کن بنیادوں پر استوار ہونا چاہیے تھا۔

حضرت عمر سے روایت ہے کہ پیغمبر اسلام نے فرمایا ’اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر آدمی کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی۔‘

اس حدیث کے تناظر میں ہم، بشمول مجھ جیسے عام آدمی سے لے کر ایوان میں بیٹھے حکمرانوں تک  کی نیتوں کا اندازہ اپنے ذاتی اور ملک کے موجودہ حالات سے لگا سکتے ہیں۔

کیوں کہ جب ہم نے انفراسٹرکچر کے معنی جاننے کے لیے آکسفورڈ ڈکشنری سے رجوع کیا تو وہاں سے یہ جواب آیا: ’وہ بنیادی انتظامی ڈھانچہ اور خدمات جو کسی ملک یا تنظیم کو آسانی اور سہولت سے چلانے کے لیے ضروری ہیں، مثال کے طور پر عمارتیں، سڑکیں، ٹرانسپورٹ، پانی اور بجلی کی فراہمی، اور دیگر اہم سہولتیں۔‘

اب آپ ہی بتایے انفراسٹرکچر کی یہ تفسیر جان کر اور اپنے ملک کے طول و عرض پر نظر دوڑانے کے بعد ملک کے حالات سدھارنے والوں کی باتیں سن کر غالب کا یہ شعر  کیوں نہ یاد آئے:

تیرے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا 

کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا  

گذشتہ کئی مضامین میں نہ صرف ہم نے اس کا ذکر کیا بلکہ اقوامِ متحدہ بھی اس بات کا اعتراف کر چکا ہے کہ گوبل وارمنگ میں پاکستان کا کردار ایک فیصد سے بھی کم اور اس سے پیدا ہونے والی آفات کو جھیلنے والے چند سرِ فہرست ممالک میں ہے۔

تو یقیناً ایک ایسے ترقی پذیر ملک ہونے کی حیثیت سے، جسے معلوم ہو کہ کبھی بھی کسی بھی وقت اُس پر کوئی بھی عذاب نازل ہوسکتا ہے، اسے سب سے پہلے ان آنے والی مصیبتوں سے بچنے یا پھر ان سے ہونے والے نقصانات کو کم سے کم کرنے پر توجہ دینا اور توانائی صرف کرنا چاہیے۔

یہ اسی صورت ممکن ہو سکتا ہے کہ ہم اپنے انفراسٹرکچر کو اتنا مضبوط کرلیں کہ آنے والے بوجھ کو سہارنے کے قابل ہو سکیں۔  

انگریزی میں ایک اختراع ہے ٹربل شوٹنگ (Trouble Shooting)، یعنی جب کوئی مسئلہ پیدا ہو تو اُس کا سُراغ لگایا اور اسے وقتی طور پر حل کر لیا جائے۔

بدقسمتی سے ہمارے ملک کا انفراسٹرکچر بھی اسی نظریہ ضرورت کے تحت معرضِ وجود میں آتا رہا ہے۔ ہمارے ملک میں بہت سے ادارے صرف اس لیے موجود ہیں کہ کاغذوں کا پیٹ بھرا جا سکے اور بین الاقوامی سطح پر یہ بتایا جا سکے کہ ہاں ہمارے پاس یہ بھی موجود ہے۔  

بین الاقوامی معیار کے مطابق پاکستان کے نسبتاً خراب انفراسٹرکچر کی صورت حال لوگوں کی زندگیوں پر شدید منفی اثرات مرتب کر رہی ہے۔

بجلی کی قلت، صاف پانی اور نکاسیِ آب کا ناقص انتظام، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، غیر معیاری ٹرانسپورٹ کی سہولتیں، مخدوش عمارتیں، سرکاری تعلیمی اداروں میں تعلیم تو دور اساتذہ، صفائی، کتابیں، پینے کا پانی اور بیٹھنے تک کے لیے کرسیاں یا دریاں تک ناپید، پرائیوٹ تعلیمی اداروں کی ہوش رُبا فیسیں، سالہا سال سے عدالتوں میں طوالت کے شکار مقدمات، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بذاتِ خود قانون شکنی، اور خطرناک حد تک آبادی میں اضافہ ہمارے مسائل کو اور گھمبیر بنا دیتا ہے۔  

یقیناً قاری یہ سوچ رہے ہوں گے کہ ان تمام معاملات کا گلوبل وارمنگ کے خطرات سے نمٹنے میں بھلا کیا۔

تو صاحب ذرا بچپن میں سنی اس چھوٹے بچے کی کہانی کو ذہن میں دہرائیں، جس میں وہ جھوٹ موٹ ’شیر آیا شیر آیا‘ چلاتے ہوئے پورے گاؤں کواکھٹا کرلیتا ہے اور جب لوگ شیر کو نہیں پاتے تو بچے کو بُرا بھلا کہ کر واپس لوٹ جاتے ہیں۔

قصہ مختصر سچ مچ شیر کو دیکھ کر بچے کے چلانے پر کوئی نہیں پہنچا اور شیر نے بچے کو کھا لیا۔ اب جب بھی اس کہانی سے حاصل ہونے والے سبق کی بات ہوتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ جھوٹ بولنے کا یہی انجام ہوتا ہے یعنی آپ کی جان بھی جا سکتی ہے۔

تو اب اس منطق کو سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ اچھی تعلیم، ضروریاتِ زندگی کی سہولیات، ذہنی سکون، اور مساوی حقوق جس قوم کو بھی حاصل ہو جائیں وہ جھوٹ، مکاری، دھوکہ دہی اور حق تلفی سے دور رہے گی۔ تو بہت حد تک ممکن ہے کہ وہ اپنی جان کی حفاظت کر سکے اور کسی بھی ملک کی ترقی اور آنے والے مسائل سے نمٹنے کا یہی ایک فارمولا ہے، جسے انفراسٹرکچر کی مضبوطی کہتے ہیں۔  

آئیے اب ذکر ہو جائے دنیا بھر کے ممالک میں موجود انفراسٹرکچر کا۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ ہم اپنے ملک میں انفراسٹرکچر کے نہ ہونے کا رونا رو رہے ہیں اور دنیا کے بہت سے ملکوں میں اس بات کی دوڑ لگی ہوئی ہے کہ ہمارے انفراسٹرکچر کا معیار دوسرے سے کتنا بہتر ہے۔ 

اک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے

سال 2019 کے مسابقتی سروے کے مطابق ملکوں میں موجود انفراسٹرکچر کے معیار کو 100 میں سے نمبر دیے گئے اور اسی کے مطابق اُن کی درجہ بندی کی گئی۔

سنگاپور 95.4، نیدرلینڈ 94.3،  ہانگ کانک 94 ، سویٹزر لینڈ اور جاپان 93.2، کوریا 92.1، سپین 90.3 اور جرمنی 90.2۔  

پہلی سے آٹھ پوزیشنوں کے ممالک کے سکور بتانے کا یہ  مقصد تھا کہ قاری پاکستان میں موجود انفراسٹرکچر کی کم مائیگی کا اندازہ لگا سکیں۔  

اسی سروے کے مطابق جنوبی ایشیا میں انڈیا کی پوزیشن 68، سری لنکا 84، بنگلہ دیش 105، نیپال 108، اور پاکستان کی پوزیشن تھی 110۔ 

ایسا نہیں ہے اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ہمارے حکمران (حکمران اس لیے لکھا کہ اُن کے طرزِ عمل سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے وگرنہ ترقی پذیر جمہوری ممالک میں وہ اپنے آپ کو سرونٹ یعنی خادم کہتے ہیں اور اکثر اُن کے طرزِ عمل سے یہ ثابت بھی ہوتا ہے) دور اندیشی سے واقف نہیں بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ ان کی یک رُخی سوچ انھیں مضحکہ خیز کاموں کی طرف راغب کر دیتی ہے۔ 

ابنِ انشا نے ایسے ہی ذہنوں کی اپنی تحریر میں کیا خوب عکاسی کی ہے۔ 

ایک بزرگ اپنے نوکر سے سرزنش کر رہے تھے کہ تم بالکل گھامڑ ہو۔ دیکھو میر صاحب کا نوکر اتنا دوراندیش ہے کہ میر صاحب نے بازار سے بجلی کا بلب منگوایا تو اس کے ساتھ ہی مٹی کا تیل اور دو موم بتیاں بھی لے آیا کہ بلب فیوز ہو جائے تو لالٹین جلائی جا سکے اور اگر اس کی چمنی ٹوٹ جائے تو موم بتیاں استعمال میں لائی جا سکیں۔  

تم کو ٹیکسی لینے بھیجا تو آدھے گھنٹے بعد آکر پوچھ رہے ہو ٹیکسی تو نہیں ملی موٹر رکشا لے آؤں۔ میر صاحب کا نوکر ہوتا تو موٹر رکشہ لے کر آگیا ہوتا تاکہ دوبارہ جانے کی زحمت نہ ہوتی۔  

نوکر نے شرمندہ ہو کر آقا کی بات پلے باندھ لی۔ چند روز بعد آقا کو بخار ہوا تو انھوں نے اسے حکیم لانے کو بھیجا۔ تھوڑی دیر میں حکیم صاحب تشریف لائے تو ان کے پیچھے تین آدمی اور بھی تھے۔ ایک کی بغل میں کپڑے کا تھان، دوسرے کے ہاتھ میں لوٹا اور تیسرے کے ہاتھ میں پھاوڑا تھا۔

آقا نے نوکر سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں۔ نوکر نے کہا: ’ویسے تو حکیم صاحب بہت حاذق ہیں، لیکن اللہ کے کاموں میں کون دخل دے سکتا ہے۔ خدانخواستہ کوئی ایسی ویسی بات ہوگئی تو میں درزی ساتھ لایا ہوں، جو کفن کا کپڑا اپنے ساتھ لایا ہے۔ یہ دوسرے صاحب غسال ہیں اور تیسرے گورکن۔ ایک ساتھ اس لیے لے آیا کہ بار بار بھاگنا نہ پڑے۔‘  

جب  ہم میں ان مضامین کو لکھنے کی تحریک پیدا ہوئی تو یقین کیجیے ذہن میں صرف یہ خاکہ تھا کہ تھوڑی بہت تحقیق کریں گے اور لکھ دیں گے کہ  گلوبل وارمنگ کیوں ہورہی ہے؟ اس سے کیا ہوسکتا ہے؟

اس کی شدت کو کیسے کم کیا جاسکتا ہے؟ اور اس سے ہونے والے نقصانات کا تدارک کس طرح ممکن ہے؟ ظاہر ہے اس کے بارے میں انٹرنیٹ پر بہت سا مواد موجود تھا، جسے کئی جگہوں سے تصدیق کے بعد آپ تک پہنچا دیا۔

لیکن جب پاکستان کے بارے میں بلی تھیلے سے باہر نکلی تو ہماری تحقیق کا رخ بدلا اور ہماری آنکھوں نے پاکستان کی معیشت، تعلیم، عدلیہ، قانون، انتظامی ڈھانچہ، دفاع، کرپشن اور دیگر شعبہ جات کے حوالے سے سرکاری اور غیر سرکاری ذرائع سے شائع ہونے والے وہ اعداد و شمار دیکھے جو زمینی حقائق سے کہیں زیادہ خوفناک تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شاید اسی وجہ سے آخر کے چند مضامین میں ہمارا لہجہ تلخ ہو گیا تھا، لیکن ایک عام مگر ذی شعور شہری جو ملکی اور بین الاقوامی حالات کی تھوڑی بہت شُد بُد رکھتا  ہو کا دل ضرور کُڑے گا کیوں کہ جب اُسے نظر آ رہا ہو کہ وسائل کی موجودگی کے باوجود نیتوں میں فتور کی وجہ سے اقتدار میں بیٹھے لوگ ملکی سالمیت اور عوامی بہبود کو پسِ پشت ڈال رہے ہیں۔

سب سے بڑا دکھ تو اس بات کا ہے کہ ہمارے ملک میں موجود بہت سے مسائل تو ایسے ہیں جنھیں چُٹکی بجاتے ہی حل کر دیا جانا چاہیے، لیکن بدقسمتی سے چُٹکی کاٹنے والے ہاتھوں کو شاید چُٹکی بجانا تک گوارا نہیں۔

آخر میں صرف  اتنا کہوں گا کہ اتنی تباہی جھیلنے کے بعد بھی اگر پاکستان کے انفراسٹرکچر کی طرف دھیان نہ دیا گیا تو خاکم بدہن حالات ماضی سے زیادہ خطرناک ہو سکتے ہیں۔  

چلتے چلتے نظیر اکبر آبادی کی نظم بنجارہ نامہ کا ایک بند ہمارے ملک کے فیصلہ سازوں کے نام (ویسے تو پوری نظم ہی اُن سے منسوب ہے)  

کچھ کام نہ آوے گا تیرے یہ لعل و زمرد، سیم و زر  

جب پونجی باٹ میں بکھرے گی، ہر آن بنے گی جاں اوپر  

نوبت، نقارے، بان، نشان، دولت، حشمت، فوجیں، لشکر  

کیا مسند تکیہ ملک مکاں، کیا چوکی، کُرسی، تخت، چھتر  

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا، جب لاد چلے گا بنجارہ  

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر