حالیہ مون سون: گلوبل وارمنگ کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا

مون سون کی بارشوں کا آغاز ہو چکا ہے اور مختلف قومی و بین الاقوامی اداروں نے رواں سال بھی ملک میں بڑے پیمانے پر سیلابی صورت حال کی پیش گوئی کی ہے۔ اس سلسلے میں حکومت کی تیاریاں کہاں تک ہیں اس کا تو وہ خود ہی بہتر جواب دے سکتے ہیں۔

آٹھ ستمبر 2022 کی اس تصویر میں شدید مون سون بارشوں کے بعد صوبہ بلوچستان کے ضلع جعفرآباد میں بے گھر ہونے والے افراد سیلابی پانی میں سے گزر رہے (اے ایف پی)

ایک اہم مسئلہ ملک کے سامنے ایک چیلنج کی صورت اختیار کر رہا ہے اور وہ ملک میں گلوبل وارمنگ کے بڑھتے ہوئے اثرات ہیں، جس کی وجہ سے گذشتہ سال پاکستان میں انتہائی خطرناک قسم کے سیلاب نے تباہی مچا دی۔

اس کے ذمہ دار مغربی ممالک ہی ہیں کیونکہ پاکستان میں آنے والے سیلاب کی اصل وجہ تو یورپ سمیت مغرب میں ہونے والی بڑے پیمانے پر ماحولیاتی آلودگی ہے، جس کے اثرات پاکستان جیسے ممالک میں سیلاب کی صورت میں نمایاں ہیں۔

گلوبل وارمنگ کی وجہ سے پاکستان اس وقت انتہائی گہرے مسائل کا شکار ہے، جن میں سے چند نمایاں ہیں۔

پاکستان گلوبل وارمنگ کی وجہ سے اپنے آب و ہوا کے نمونوں میں تبدیلیوں کا سامنا کر رہا ہے۔ ان تبدیلیوں میں درجہ حرارت میں اضافہ، بارش کے بدلے ہوئے نمونے اور شدید موسمی واقعات جیسے ہیٹ ویو، خشک سالی اور شدید بارشیں شامل ہیں۔

یہ تبدیلیاں زراعت، پانی کی دستیابی اور انسانی صحت پر نہایت منفی اثرات مرتب کر رہی ہیں، جس کی مثال رواں سال ملک میں ہونے والے موسمیاتی تغیر کے باعث نقصانات ہیں۔ رواں سال جہاں ملک میں گرم مہینوں میں بھی سخت سردی دیکھی گئی، وہیں اب حال ہی میں پاکستان میں ہیٹ ویو کی ایک شدید لہر بھی ہم سب کے سامنے ہے۔

اسی طرح ملک میں بارشوں کا سلسلہ دن بدن خطرناک ہوتا جا رہا ہے، جس کی واضح مثال حال ہی میں لاہور میں ہونے والی ریکارڈ بارشیں ہیں، جس سے شہر کا پورا نظام درہم برہم ہوگیا۔ ماہرین کے مطابق یہ بارشیں شہر کی 30 سالہ تاریخ میں سب سے زیادہ ریکارڈ ہوئی ہیں۔

مون سون کی بارشوں کا آغاز ہو چکا ہے اور مختلف قومی و بین الاقوامی اداروں نے رواں سال بھی ملک میں بڑے پیمانے پر سیلابی صورت حال کی پیش گوئی کی ہے۔ اس سلسلے میں حکومت کی تیاریاں کہاں تک ہیں اس کا تو وہ خود ہی بہتر جواب دے سکتے ہیں لیکن گذشتہ سال ہونے والی تباہی کے پیش نظر یہ بارشیں بھی ملک کے لیے انتہائی سخت حالات لیے کھڑی ہیں۔

زراعت پاکستان کی معیشت کا ایک اہم شعبہ ہے، جو آبادی کے ایک اہم حصے کو روزگار فراہم کرتا ہے۔ گلوبل وارمنگ درجہ حرارت، بارش کے انداز اور پانی کی دستیابی میں تبدیلیوں کے ذریعے زراعت کے لیے چیلنجز پیدا کرتی ہے۔ بڑھتا ہوا درجہ حرارت فصل کی پیداوار اور پیداوار کو متاثر کر رہا ہے، یہ کیڑوں اور بیماریوں کے پھیلاؤ کو بڑھا سکتا ہے اور پودے لگانے اور کٹائی کے موسموں کے وقت کو تبدیل کر سکتا ہے۔

رواں سال ملک میں  گلوبل وارمنگ کی وجہ سے مختلف فصلوں کو بھی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے، جن میں آم کی پیدوار میں ہر سال کمی اور کپاس جیسی فصلوں کی پیدوار میں مسلسل کمی بھی نمایاں ہیں۔

پاکستان کئی گلیشیئرز کا گھر ہے، جن میں قراقرم اور کوہ ہندوکش کے پہاڑی سلسلے بھی شامل ہیں۔ گلوبل وارمنگ سے ان گلیشیئرز کے پگھلنے میں تیزی آئی ہے، جس کے نتیجے میں قلیل مدت میں پانی کے بہاؤ میں اضافہ ہوا ہے، لیکن گلیشیئرز کے سکڑنے کے ساتھ طویل مدت میں پانی کی قلت کا امکان ہے۔ یہ میٹھے پانی کے وسائل کی دستیابی کو متاثر کرتا ہے، کیونکہ یہ گلیشیئر دریاؤں اور آبپاشی کے نظام کے لیے پانی کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان کو پہلے ہی پانی کی کمی کے مسائل کا سامنا ہے اور گلوبل وارمنگ اس مسئلے کو مزید بڑھا دیتی ہے۔ زیادہ درجہ حرارت کی وجہ سے بارش کے پیٹرن میں تبدیلی اور بخارات کی بڑھتی ہوئی شرح زراعت، صنعت اور گھریلو استعمال کے لیے پانی کی دستیابی کو کم کرنے میں معاون ہے۔ یہ پانی کے وسائل پر تنازعات کا باعث بن سکتا ہے، خاص طور پر ملک کے اندر مختلف علاقوں اور شعبوں کے درمیان اور انڈیا کے ساتھ آبی تنازعات الگ سے ہیں، کیونکہ وہ تو ہمیشہ سے ہی ہمیں نقصان پہنچانے کی آڑ میں ہوتا ہے۔

گلوبل وارمنگ پاکستان میں قدرتی آفات جیسے سیلاب، طوفان اور لینڈ سلائیڈنگ کی تعدد اور شدت میں اضافہ کر رہی ہے۔ یہ واقعات بنیادی ڈھانچے، زراعت اور انسانی بستیوں کو نمایاں نقصان پہنچانے میں مصروف ہیں، جس کے نتیجے میں جانوں کا ضیاع اور کمیونیٹیز کی نقل مکانی بھی ایک چیلنج کی صورت میں پاکستان کے سامنے کھڑی ہے۔

اس ساری صورت حال کو بتانے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان جو پہلے سے ہی معاشی و سیاسی عدم استحکام سے نمٹ رہا ہے، جس کے باعث پورے ملک کی توجہ صرف ملک کے سیاسی و معاشی معاملات پر مرکوز ہے، جو کہ اچھی بات ہے لیکن اس ساری صورت حال میں گلوبل وارمنگ جیسے اہم مسئلے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے کیونکہ اس مسئلے کا تعلق براہ راست ملکی معیشت سمیت اس  آبادی سے ہے، جو کہ پہلے سے ہی  خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

ریاست پاکستان کو اس اہم قومی مسئلے سے نمٹنے کے لیے فوری اور موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

گلوبل وارمنگ کے اثرات کو کم کرنے کے لیے، پاکستان کو موافقت اور تخفیف کی حکمت عملیوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، پائیدار زراعت کے طریقوں کو فروغ دینا، پانی کے انتظام کو بہتر بنانا اور صاف ستھرے اور قابل تجدید توانائی کے ذرائع کی طرف منتقلی، یہ سب اقدامات نہ صرف وقت کی اہم ضرورت ہیں بلکہ پاکستان جیسے ملک کے لیے نہایت ضروری بھی ہیں۔

اسی طرح گلوبل وارمنگ جیسے اہم مسئلے سے نکلنے کے لیے پاکستان کو بین الاقوامی برادری کا مکمل تعاون بھی درکار ہے کیونکہ ہم شروع سے ہی اس سارے معاملے میں انہی ممالک کے رویوں کی وجہ سے پھنسے ہوئے ہیں اور پاکستان جو اس وقت معاشی مسائل کا شکار ہے، اس کے لیے اس بڑے اور اہم مسئلے سے بذات خود نکلنا ممکن نہیں ہے۔

بین الاقوامی تعاون اور گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کی کوششیں بھی ماحولیاتی تبدیلی کے عالمی مسئلے سے نمٹنے کے لیے بہت اہم ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنے رویوں اور توجہ کو اہم قومی مسائل پر مرکوز کریں کیونکہ اگر ہم اب ان اہم مسائل پر قومی سطح پر بات نہیں کریں گے تو وہ وقت دور نہیں جب ہم انہی باتوں کو لے کر پچھتا رہے ہوں گے لیکن تب تک سب چیزیں ہماری دسترس سے باہر ہوچکی ہوں گی۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ