صدر شی برکس سربراہی اجلاس میں خطاب نہ کرسکے، دیگر کا خطاب

فورم میں صدر شی کے اس غیر متوقع اقدام نے افواہوں کو جنم دیا ہے جس میں چین کے کئی تجزیہ کار بھی آخری لمحات میں کی گئی اس تبدیلی کے پیچھے کی وجہ کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

چین کے صدر شی جن پنگ حیران کن طور پر جنوبی افریقہ میں منعقدہ برکس (برازیل، روس، چین، انڈیا اور جنوبی افریقہ) سربراہی اجلاس سے خطاب کرنے سے دستبردار ہو گئے جہاں اقتصادی بلاک کے رہنماؤں نے منگل کو اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

صدر شی اس اہم کثیر الجہتی تجارتی فورم میں شرکت کے لیے پیر کو جوہانسبرگ پہنچے تھے اور وہ برازیل، جنوبی افریقہ، انڈیا اور روس کے صدر ولادی میر پوتن کے ساتھ اپنی تقریر کرنے والے تھے۔

مندوبین کے استقبال کے بعد چینی صدر کو انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ بٹھانے کا انتظام کیا گیا تھا لیکن ان کے بجائے چینی وزیر تجارت وانگ وین ٹاؤ نے ان کی جگہ لے لی۔

فورم میں صدر شی کے اس غیر متوقع اقدام نے افواہوں کو جنم دیا ہے جس میں چین کے کئی تجزیہ کار بھی آخری لمحات میں کی گئی اس تبدیلی کے پیچھے کی وجہ کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

چین کی طرف سے صدر شی کی تقریر سے دستبرداری کی کوئی وجہ پیش نہیں کی گئی۔ وزیر تجارت وانگ نے بالآخر فورم سے خطاب کیا۔

کہا جاتا ہے کہ صدر شی نے اس دن کے آغاز میں جنوبی افریقہ کے صدر سیرل رامافوسا سے ملاقات کی اور بعد میں جنوبی افریقہ، برازیل اور انڈیا کے رہنماؤں کے ساتھ ساتھ روس کے وزیر خارجہ کے ساتھ سربراہی اجلاس کے موقع پر دیے گئے عشائیہ پر گئے۔

چین کے مبصرین نے اس ’غیر معمولی‘ تبدیلی کو بطور خاص نوٹ کیا۔

چینی امور نیوز لیٹر سنوشیم کے مصنف بل بشپ نے کہا: اس کے پیچھے کچھ گڑبڑ لگ رہی ہے۔‘

ادھر افریقہ کے ساتھ چین کے معاملات کا احاطہ کرنے والے چائنا گلوبل ساؤتھ پروجیکٹ نے ایکس پر لکھا کہ اس اقدام کو ’غیر معمولی‘ قرار دینا ایک چھوٹی بات ہوگی کیونکہ چینی رہنما کبھی بھی اس طرح کے انتہائی اہم پروگراموں سے دستبردار نہیں ہوتے۔

غیر سرکاری ملٹی میڈیا تنظیم نے کہا کہ ’جنوبی افریقہ میں برکس سربراہی اجلاس میں چینی وفد کے لیے منگل ایک بہت ہی غیر معمولی پہلا دن تھا جب صدر شی جن پنگ بزنس فورم میں اپمی مقررہ تقریر کے لیے نہیں آئے۔‘

تنظیم نے حال ہی میں تبدیل کیے گئے سابق چینی وزیر خارجہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: ’یہ اس سال برکس اجلاس میں چین کی دوسری پراسرار غیر حاضری ہے۔ ان کی جگہ لینے سے پہلے کن گینگ کیپ ٹاؤن میں گذشتہ ماہ ہونے والے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں بھی غیر واضح طور پر موجود نہیں تھے۔‘

جرمن مارشل فنڈ کے انڈو پیسیفک پروگرام کے منیجنگ ڈائریکٹر بونی گلیزر نے بھی چینی صدر کی تقریر سے دستبرداری کو ’انتہائی غیر معمولی‘ قرار دیا کیونکہ بیجنگ نے برکس میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔

کئی چینی خبر رساں اداروں اور یہاں تک کہ چینی وزارت خارجہ کے اعلیٰ ترجمان ہوا چونینگ نے وزیر تجارت وانگ کے ریمارکس کا حوالہ دینے کے بعد آخری لمحات کی تبدیلی تک یہ ظاہر کیا گویا ان خیالات کا اظہار صدر شی کی طرف سے دیا گیا تھا۔

22 سے 24 اگست میں ہونے والی سربراہی کانفرنس بیجنگ کے لیے اور بھی زیادہ اہمیت رکھتی ہے کیونکہ یہ گروپ G7 جیسے بلاکس سمیت عالمی اداروں پر مغربی تسلط کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس سال برکس سربراہی اجلاس کے اہم ایجنڈوں میں سے ایک اس امید کے ساتھ بلاک کی توسیع بھی ہے کہ وسیع تر رکنیت اس گروپ کو مضبوط کرے گی جو پہلے ہی دنیا کی تقریباً 40 فیصد آبادی اور عالمی مجموعی پیداوار کے ایک چوتھائی کی نمائندگی کرنے پر فخر کرتی ہے۔

چین نے بھی اس احساس کا اظہار کیا جس نے کہا کہ مستقبل کی تشکیل گروپنگ کے آج کے فیصلوں سے ہو گی۔

وزیر تجارت وانگ نے کہا: ’دنیا میں ہمارے زمانے میں اور تاریخ میں تبدیلیاں ایسے طریقوں سے آ رہی ہیں جیسے پہلے کبھی نہیں ہوئیں۔ انسانی معاشرے ایک نازک موڑ پر کھڑے ہیں۔ تاریخ کا دھارا ہمارے فیصلوں سے تشکیل پائے گا۔‘

انہوں نے امریکہ کا نام لیے بغیر واشنگٹن کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اسے ’تسلط برقرار رکھنے کا جنون ہے اور وہ ابھرتی ہوئی منڈیوں اور ترقی پذیر ممالک کو اپاہج کرنے کے راستے پر گامزن ہے۔‘

ان کے بقول: ’جو بھی پہلے ترقی کرتا ہے وہ ان کا ہدف بن جاتا ہے۔ جو بھی ترقی پا رہا ہے وہ رکاوٹ کا نشانہ بن جاتا ہے۔‘

تاہم تمام برکس ممبران چین کی طرح ایک پیج پر نہیں ہیں۔

انڈیا امریکہ کا ایک ثابت قدم اتحادی ہے جس کے اپنے پڑوسی ملک چین کے ساتھ کشیدہ تعلقات ہیں اور وہ بلاک کے ذریعے بیجنگ کو بااختیار بنانے سے ہچکچا رہا ہے۔

انڈیا نے بلاک میں تیزی سے توسیع کے خلاف خبردار کیا جس کے خارجہ سکریٹری ونے کواترا نے کہا کہ انڈیا مثبت ارادے اور کھلے ذہن کے ساتھ آگے بڑھے گا۔

برازیل کے صدر لوئیز اناسیو لولا دا سلوا نے تسلیم کیا کہ ان کا مقصد مغربی اداروں سے مقابلہ کرنا نہیں ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا