فکر ونظر کے پہرے دار

جیسے ہی آنکھ کھلی اُس نے خود کو ایک تنگ و تاریک کمرے میں پایا جو کسی قبر سے کم نہ تھا۔ اندھیرا اتنا مُہیب تھا کہ ایک لمحے کے لیے اُس نے محسوس کیا کہ شاید وہ وجود سے عدم کی راہ اختیار کر چکا ہے۔

(پکسا بے)

کیفیت یہ تھی کہ اُسے منہ کے بل گرا کر اُس کی پشت پرلگا تارلاتیں ماری جا رہی تھیں۔ کافی دیربعد یہ سلسلہ اُس وقت رُکا جب کونر فیِرو اَدھ مُوا ہو چلا اور بالآخر ایک وقت وہ آیا کہ غنودگی اور نیم بے ہوشی کے درمیان چلا گیا۔

اُسے یہ تو یاد نہیں رہا کہ وہ کب تک اُس کیفیت میں مبتلا رہا، تاہم اتنا ضرور یاد رہا کہ جیسے ہی آنکھ کھلی اُس نے خود کو ایک تنگ و تاریک کمرے میں پایا جو کسی قبر سے کم نہ تھا۔ گھٹا ٹوپ اندھیرا اتنا مُہیب تھا کہ ایک لمحے کے لیے اُس نے محسوس کیا کہ شاید وہ وجود سے عدم کی راہ اختیار کر چکا ہے۔

تاہم چھوٹے سے دروازے کی دراڑ سے آنی والی روشنی کی باریک سی کرن دیکھ کر بے اختیار اُس کی سمجھ میں آیا کہ عذاب تو قبر جیسا ہی ہے لیکن جگہ بہرحال قبرنہیں۔

نقاہت، کمزوری اور جسم پر لگنے والی ضربوں نے ایک بار پھرغلبہ کیا اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی نیند کی گہری وادیوں میں جا پہنچا۔

اب جو آنکھ کھلی توصبح کا منظر تھا، تاہم یہ سُہانا ہرگز بھی نہ تھا۔ سامنے ایک پلیٹ میں سوکھی روٹی اور ایک پیالی چائے موجود پائی جو اُس کی نیند کے دوران میں کوئی رکھ کر چلا گیا تھا۔

یخ بستہ سردی اردگرد کی فضا جسم کو ٹھنڈا بنانے پر تو مُصر تھی ہی،تاہم اُس نے جس چیز کو چند ہی لمحوں میں اپنے جیسا بنا ڈالا تھا، وہ چائے تھی۔

اُس نے کسی نہ کسی طرح وہ سوکھی روٹی برف جیسی ٹھنڈی چائے کے ساتھ حلق سے اتار ہی لی۔ اب اُس نے سوچنا شروع کیا کہ آخر اُس سے ایسا کون سا گناہ سرزد ہوا ہے جس کی پاداش میں اسے یہ ’عذاب قبر‘ دیا جارہا ہے۔

اُس نے اپنے گزرے دنوں کی مصروفیتوں کا اور احباب کے ساتھ گزاری گئی صُحبتوں کا بہت گہرائی سے تجزیہ کیا، تاہم تمام تر مشغولیتوں میں سے اُسے کوئی بات بھی قابلِ ذکر نظر نہ آئی۔

اگلا دن بھی اسی بے چینی اور بے قراری میں گزرا۔ سب سے زیادہ پریشان کُن بات یہ تھی کہ اُس کے گھر والوں پر کیا بیت رہی ہو گی؟ بیوی بچّوں اور بیوہ ماں کا کیا حال ہوگا؟مگر وہاں تھا کون جو اُس کی وحشتوں کا ساتھی ہوتا۔

وہ تو دو دن بعد جب اس چھوٹی افریقی راجدھانی کے داروغہ کے کارندے آئے تو اُسے معلوم ہوا کہ اُس کا قصور کیا ہے۔

’تم پرسردار کے باغیوں کی حمایت میں قلم اٹھانے کا  الزام ہے۔‘ ایک اہلکار نے مختصرمگر خطرناک چارج شیٹ پیش کی۔ فیرو ابھی اپنی صفائی میں کچھ کہنا چاہ رہا تھا کہ اہلکار بولا ’تمہاری عافیت اسی میں ہے کہ اپنا جرم قبول کرلو‘۔

آئیے ذرا مختصر وقت کے لیے افریقی تاریخ کا سفر کرتے ہیں۔ یہ اتنی صدیوں پرانی بات ہے کہ جب افریقہ میں شورشوں اور آزادی کی طویل جنگوں کے بعد ایک قبائلی سردار نے اپنی راجدھانی قائم کی تھی۔

صلح جُو سردار مشاورت اور اظہارائے پر یقین رکھتا تھا مگر اس کی راجدھانی جن حالات میں قائم ہوئی تھی، اس نے اُسے دورجدید کی سکیورٹی سٹیٹ بنا دیا تھا۔ اس لیے معاملات میں زیادہ ترداروغہ اور اس کے کارندوں کی ہی چلتی تھی اور اسی سبب داروغہ نے باغیوں کی سرکوبی کے لیے تفتیش کے سخت طریقے بھی رائج کیے تھے۔

فیرو جس راجدھانی کا باشندہ اورمعزز قلم کار تھا اُس کو دراصل اسی راجدھانی کے کارندوں نے اس بنیاد پر قیدی بنایا تھا۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فیرو اور اس جیسے دیگر لوگوں پر آزمایا جانے والا طریقہِ تفتیش یہ تھا کہ حکومتی کارندے قیدیوں کی اوّل تو خوب گوشمالی کرتے اور اس کے بعد تاریک کمرے کی مہینوں پر محیط خاموشی اُن کے اعصاب کی رفتہ رفتہ شکست و ریخت کے عمل کو یقینی بناتی۔

قیدی اپنے گھر والوں سے دُوراتھاہ سناٹے میں زندگی کے دن گزارتا۔ یوں فیرو بھی ذہنی طور پر مفلوج ہوتا جا رہا تھا۔ ایک دن حکومتی کارندے آئے اور اُس کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر کہیں لے چلے۔

آدھے گھنٹے پر محیط مختصر سفر میں فیرو یہی سوچتا رہا کہ اب سواری رکے گی اور اس کوقتل کرکے کسی ویرانے میں پھینک دیا جائے گا۔ تاہم جب پٹی کھلی تو اس نے اپنے آپ کو علاقے کے چرچ میں پایا، جہاں اس کی بیوہ ماں کی آخری رسومات ادا کی جا رہی تھیں۔

فیرونے ماں کے جسد خاکی کو احترام اور التفات بھری مگر مدہم نظرسے دیکھا کیونکہ کافی عرصہ اندھیرے میں رہنے کی وجہ سے اس کی آنکھیں پوری طرح کھلنے کے قابل نہیں رہی تھیں۔

پھر اس نے مجمع میں اپنی بیوی اور بچے کو تلاش کیا۔اُس نے دونوں کو دیکھ تو لیا مگر یہ محض نظروں کی ملاقات تھی۔  فیرو کو روانہ کردیا گیا۔ وہ سوچنے لگا باقی لوگوں کے برعکس شاید پھر سے جی اٹھنے کے لیے اس کوبیک وقت دو قبروں میں رہنا پڑے گا اوراس کے پیچ کچھ نہیں۔

فیرو کی آزمائشیں جاری تھیں اور پھر ڈھائی سال کے لگ بھگ ’عذاب قبر‘ جھیلنے کے بعد اس کو داروغہ کے سامنے پیش کردیا گیا۔

فیرو سمجھا شاید سزائے موت سنائی جائے گی، مگر داروغہ گویا ہوئے ’ہمیں آپ سے روا رکھے گئے سلوک پر بے حد افسوس ہے، ہم نے مکمل چھان بین کی ہے، تاہم آپ کے خلاف کچھ بھی ثابت نہ ہوا۔ آپ کو آزادی مبارک ہو، ہمارے لائق کوئی بھی کام ہو تو ضرور بتائیے گا، ہم رابطے میں رہیں گے‘۔

اب فیرو تم سے آپ ہوچکا تھا۔ داروغہ صاحب  اس معزز قلم کارسے آپ جناب سے بات کررہے تھے لیکن فیرو کچھ نہ کہہ پایا۔ شکریی کے لیے ہاتھ جوڑے اور روانہ ہوا۔

وہ  قلعے سے نکلا تو بمشکل چل پارہا تھا، وہ بہت خوش تھا اور بہت تیز چل رہا تھا۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ اڑ کر اپنی بیوی اور بچے کے پاس پہنچے۔ اس کے ذہن کے پردے پر ایک خوبصورت فلم چل رہی تھی، پھر اچانک اس کی نظر اُس مکتب پر پڑی جہاں باغیوں کے سردار نے اپنے ہی استاد کو اس پول سے لٹکا دیا تھا جہاں اس نے راجدھانی کی آزادی کے دن پر اس کا جھنڈا لہرایا تھا۔

وہ تیزی سے پلٹا اور چیف دراغہ کے پاس پہنچا۔ ’آپ نے مجھ سے کام کا پوچھا تھا؟ میں ایک درخواست لے کر آیا ہوں۔ راجدھانی اور آپ کا شعبہ مجھ سے کوئی رابطہ نہ رکھے یا مجھے پھر سے اُسی زندان میں ڈال دیا جائے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ