اسی وقت باہر جھانکیں، سڑک پہ دیکھیں، 70 فیصد گاڑیاں سفید ہوں گی یا سلور اور کالی۔ ہم لوگ ان تین رنگوں کی گاڑیاں کیوں لیتے ہیں؟
پچھلی صدی کے شروع میں جب گاڑیاں باقاعدہ کمرشل مارکیٹ کے لیے بننا شروع ہوئیں تو 1908 میں فورڈ موٹر کمپنی کی مشہور کار ’ماڈل ٹی‘نے تاریخ بالکل بدل دی۔ شروع میں یہ گاڑی سبز، سرخ، سرمئی اور نیلے رنگ میں دستیاب تھی لیکن 1914 میں فورڈ صاحب نے تاریخی فیصلہ کیا کہ گاڑی اب صرف کالی ہو گی۔ اس کی وجہ کیا تھی؟
اکانومی ۔۔۔ کالے رنگ کا پگمنٹ سب سے سستا تھا۔
فورڈ نے ڈیڑھ کروڑ ماڈل ٹی بیچی جن میں شاید کروڑ سے اوپر گاڑیاں کالی ہی تھیں۔
اس کے بعد ایک لمبی تاریخ ہے جس میں ابھی پچھلے سال آنے والی پنک جیگوار بھی شامل ہے، لیکن وہ ایک استثنیٰ تھا، سوال وہی ہے کہ سیفد گرے یا کالی گاڑی ہی کیوں؟
پی پی جی انڈسٹریز ایک امریکن کمپنی ہے جو دنیا بھر میں گاڑیوں کے پینٹ بنانے میں دوسرے نمبر پہ ہے۔ 2012 میں اس نے ایک سروے جاری کیا جس کے مطابق دنیا بھر میں پہلے نمبر پہ سفید، 22 فیصد، دوسرے پہ سلور، 20 فیصد اور تیسرے پہ کالا تھا جس کا فی صد استعمال 19 تھا۔ یعنی دنیا بھر میں 61 فیصد گاڑیاں ان تین رنگوں کی تھیں۔
اسی سروے میں یہ بھی کہا گیا کہ 45 فیصد لوگ گاڑی خریدتے ہوئے چاہتے ہیں کہ ان کے پسندیدہ ماڈل میں رنگوں کی ایک بھرپور رینج سامنے ہو اور 77 فیصد تو صرف رنگ ہی کی بنیاد پہ فیصلہ کرتے ہیں کہ گاڑی لینی ہے یا نہیں۔
لیکن سروے سے باہر کی دنیا میں نکلیں تو پوری دنیا میں گاڑیوں پہ ایک ہی چونا پھرا نظر آتا ہے، وہی نمبر ون سفید یا پھر سلور اور کالا!
اب سے ہم سفید، سلور اور کالے رنگ کو گرے سکیل گاڑی کہیں گے تاکہ بات سمیٹنی آسان ہو۔
گرے سکیل گاڑی کے پیچھے سب سے بڑا فیکٹر سیف آپشن کا ہے۔ یہ گاڑیاں عموماً پروفیشنل اور سادہ سی نظر آتی ہیں، اسی لیے بڑی کارپوریشنز، رینٹ آ کار والے یا سرکاری ادارے بھی عام طور پر گرے سکیل گاڑیاں ہی خریدتے ہیں۔
اس بات کو آپ یوں سمجھیں کہ اگر آپ کسی دفتر میں افسر ہیں، بزنس مین یا سرکاری شخصیت ہیں، تو آپ کی گاڑی بھی آپ کی پروفیشنل امیج کا حصہ بن جاتی ہے، اب کالی اور گرے گاڑیاں سنجیدہ اور پراعتماد شخصیت کا تاثر دیتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ سرکاری پروٹوکول سے لے کر کارپوریٹ سیکٹر تک زیادہ تر گاڑیاں انہی رنگوں میں دکھائی دیتی ہیں۔
ویسے آپ نے کبھی کسی ایم این اے یا سی ای او کو گلابی یا پیلے رنگ کی گاڑی میں دیکھا ہے؟
پھر کار بنانے والے بھی جانتے ہیں کہ گرے سکیل ’سیف آپشن‘ ہے، کیونکہ زیادہ تر لوگ، چاہے وہ کس بھی پس منظر یا علاقے سے تعلق رکھتے ہوں، گھوم پھر کے لیتے وہی تین رنگ ہیں، سفید، سلور یا کالا۔
پرانی فلموں میں دیکھیں تو نیلی، لال اور سبز گاڑیاں بھی لوگ شوق سے لیتے تھے، لیکن فلموں، اشتہارات اور سوشل میڈیا نے گرے سکیل کو ایک مہذب اور کلاسیک قسم کی چوائس بنا کے پیش کیا ہے، مثلاً ۔۔۔ جیمز بانڈ کی گاڑی کا رنگ کیا تھا؟
اسی طرح مرسیڈیز، بی ایم ڈبلیو یا آڈی وغیرہ کی نئی گاڑیاں دیکھیں تو ان کے لانچنگ کلرز بھی اکثر گرے یا سلور ہوتے ہیں — اسی وجہ سے یہ رجحان عام لوگوں میں بھی مقبول ہو جاتا ہے۔
جب یہ سب ہوتا ہے تو ری سیل بھی ظاہری بات ہے انہی رنگوں والی گاڑی کی ہو گی ۔۔۔ کون چاہتا ہے لال رنگ کے شوق میں پانچ دس لاکھ تڑوا لے؟
ایک چیز ہوتی ہے پیلیٹ ۔۔۔ یعنی گرے سکیل میں سفید سے لے کر سیاہ تک جتنے بھی رنگ ہیں وہ گرے کا پیلیٹ ہیں۔ تو یہ جو گرے پیلیٹ ہے یہ دراصل جدید مصروف زندگی میں چوائس سے بھاگنے کا بھی ایک راستہ ہے۔ جب کوشش کے بغیر آپ کو ایک باوقار رنگ مل سکتا ہے تو آپ اس پیلیٹ سے ہٹنے کی کوشش کیوں کریں گے؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جو سب سے بڑا فائدہ ہے گرے سکیل کا وہ یہ کہ ایکسیڈنٹ وغیرہ کے بعد مستری زیادہ پیسے نہیں مانگتا رنگ کے لیے، کلر کوڈ آسانی سے میچ ہو جاتا ہے۔
کالے سے ہٹ کے دیکھیں تو گرے سکیل کے باقی دونوں رنگ یعنی سلور اور سفید سب سے زیادہ غریب نواز ہیں۔ آپ 2001 ماڈل کی کوئی بھی لال یا سبز گاڑی دیکھ لیں، اب تک چھت اور بونٹ کی سائیڈوں سے اس کا استر نکل آیا ہو گا لیکن سیفد یا سلور پینٹ بہت حد تک اپنی اصل چمک کے ساتھ ہو گا۔ وجہ کیا ہے؟ آف کورس کہ سفید اور سلور رنگ موسم کی مار بھی سب سے زیادہ کھاتے ہیں۔
سفید اور سلور کا ایک اور عملی فائدہ یہ ہے کہ وہ سورج کی روشنی کو منعکس کرتے ہیں، اس طرح گاڑی کا اندرونی ٹمپریچر کم رہتا ہے، ایئر کنڈیشننگ پر کم بوجھ پڑتا ہے تو فیول اکانومی بھی بہتر ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے مشرق وسطیٰ، افریقہ، اور پاکستان سمیت جنوبی ایشیا کے اکثر علاقوں میں آپ کو یہی رنگ سب سے زیادہ نظر آتے ہیں۔
پورے گرے سکیل میں ایک مسئلہ لیکن موجود ہے جس کے بعد فائنلی سمجھ میں آتا ہے کہ سفید رنگ ہی کیوں نمبر ون ہوتا ہے ہمیشہ ۔۔۔
مختلف انشورنس کمپنیز اور حکومتی اداروں نے مختلف اوقات میں جب سروے کروائے تو سامنے آیا کہ سب سے زیادہ حادثے کا شکار ہونے والی گاڑیوں کا رنگ کالا یا ڈارک گرے ہوتا ہے اور سب سے کم حادثے پہلے نمبر پہ زرد، اور دوسرے نمبر پہ سفید گاڑیوں کے ہوتے ہیں۔ رات کے وقت تو سمجھ میں آتا ہے کہ سفید گاڑی دور سے دکھائی دیتی ہے لیکن دن کی وضاحت یوں سمجھ لیں کہ گرے یا کالی گاڑی آس پاس کے ماحول یا سڑک کے اپنے رنگ میں کیموفلاج ہو جاتی ہے جب کہ پیلی اور سفید گاڑی عموماً بہت دور سے ہی نمایاں ہوتی ہے۔
سفید رنگ کی بادشاہت کیوں جاری ہے، ہم نے جان لیا ۔۔۔ پیلے کے بارے میں جان لیں کہ جہاں سب سے زیادہ سیفٹی چاہیے ہوتی ہے جیسے بچوں کی سکول بس یا پبلک ٹیکسی وغیرہ، وہاں دنیا بھر میں پیلا رنگ ہمیشہ سے اولین ترجیح رہا ہے، باقی، چونکہ عام لوگ پیلی گاڑی پسند نہیں کرتے، اس لیے سفید ہی نمبر ون رہتا ہے!