سوزوکی 80، یہ موٹر سائیکل کیا سوچ کر بنائی گئی تھی؟

ہر آئیکانک موٹرسائیکل کا ایک ساؤنڈ ہوتا ہے، موٹرسائیکلیں چلی جاتی ہیں، مالک کے کانوں میں ان کی سدا بہار آواز رہ جاتی ہے، لیکن سوزوکی 80؟؟؟ اس کی تو کوئی انتہائی جنریٹر قسم کی آواز تھی۔ یقین کریں مجھے اس کی آواز بھی یاد نہیں۔

23 روپے لیٹر ہوتا تھا پیٹرول جب یہ نحوست ہم نے گلے میں باندھی۔

ماضی سے متعلق ہر چیز ہمیشہ رومینٹک لگتی ہے لیکن سوزوکی 80 موٹرسائیکل کے بارے میں کوئی ایک بھی پازیٹو وائب باوجود شدید سوچنے کے، دماغ میں آ ہی نہیں رہی۔

’مطلب، لیٹ می بی آنیسٹ ود یو، بہت کوشش کی بیٹا، آپ ہمیں بالکل پسند نہیں آئے!‘

میں نے چھوٹے بھائی خاور کو فون کیا، یہ موٹر سائیکل اصل میں اسی کے لیے ہم لوگوں نے خریدی تھی، اس بے چارے نے بھی بڑی دیر بات کی، کوئی ایک اچھی یاد اس کے دماغ میں بھی نہیں تھی اس بائیک سے متعلق۔

یہ موٹر سائیکل کیا سوچ کر بنائی تھی سوزوکی والوں نے، آج تک سمجھ میں نہیں آتا۔

ڈیزائن کی بات کریں تو سرے سے کچھ ایسا تھا ہی نہیں۔ 70 کی دہائی کے آخری برسوں میں اچھی بھلی دلکش موٹرسائیکلیں پاکستان میں آنا شروع ہو چکی تھیں۔ یاماہا تھی، کاواساکی 80، 100 اور 125 تھی، ہونڈا کے سارے ماڈل سوائے 110 کے، بہت ایروڈائنامک قسم کے ہوتے تھے، پتہ لگتا تھا کہ کوئی منہ متھا ہے سواری کا۔۔۔ اس بائیک میں کیا تھا؟

ٹینکی ٹاپے عجیب بے ہنگم قسم کے تھے، کوئی ترتیب نہیں تھی، سیٹ کے آخری کونے سے کر ہینڈل تک، ایسا لگتا تھا ایک جیومیٹری باکس کو پہیے لگا دیے ہیں، بلکہ یار جیومیٹری باکس بھی پیارے ہوتے تھے، یہ بے ہنگم پنے کا کوئی نیکسٹ ہی لیول تھا۔ پچھلی بتی تک عجیب اودبلاؤ ڈیزائن کی تھی۔

ہر آئیکانک موٹرسائیکل کا ایک ساؤنڈ ہوتا ہے، موٹرسائیکلیں چلی جاتی ہیں، مالک کے کانوں میں ان کی سدا بہار آواز رہ جاتی ہے! سوزوکی 80؟؟؟ اس کی تو کوئی انتہائی جنریٹر قسم کی آواز تھی۔ یقین کریں مجھے اس کی آواز بھی یاد نہیں۔

موٹر سائیکل پر سیٹ کے پیچھے عام طور پہ ایک گرپ یا چھوٹے کیریئر نما کوئی چیز لگی ہوتی ہے۔ نارمل موٹرسائیکل خریدنے والے بچے اس زمانے میں سب سے پہلے اسے اتارتے تھے تاکہ بائیک کی شکل تھوڑی سٹائلش ہو جائے۔ اس موٹر سائیکل کو اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑا۔

سائیڈ مررز ہمارے زمانے میں بھی نہیں لگائے جاتے تھے، وہ ’اولڈ فیشنڈ‘ چیز سمجھی جاتی تھی۔ یہ کوئی ایسی بے سُری موٹرسائیکل تھی کہ سائیڈ والے شیشے لگا دیں یا اتار لیں، قسم بہ خدا کہ اس کی شکل میں کوئی معمولی سی تبدیلی آ جائے، وہی سدا بہار مٹھوس پن تھا اور ہر پرزے پہ ٹپکتا تھا۔ انتہا یہ سمجھ لیں کہ سنجے دت کو بھی اگر اس موٹرسائیکل پہ بٹھایا جاتا تو وہ شکتی کپور لگنا شروع ہو جاتے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پھر ہم نے ایک کام کیا۔ اس کی ٹینکی اور سائیڈ کور بدل کے نئے ماڈل والے لگا دیے، سائلنسر اسے کاواساکی کا لگایا، جتنی کاسمیٹک تبدیلیاں بجٹ میں رہتے ہوئے ممکن تھیں وہ سب کیں لیکن قسم بہ خدا جو دھیلے کا فرق اسے پڑا ہو!

آپ جو مرضی کر لیں مگر ایک موٹرسائیکل پر بیٹھنے کا انداز نہیں بدل سکتے۔ نارمل بائیک پر بندہ سیٹ پہ ریلیکس بیٹھا ہوتا ہے اور ہینڈل پر جب اس کا ہاتھ آتا ہے تو سمجھیے دو بجنے میں دس منٹ والا پوسچر ہوتا ہے، یعنی ہاتھ باقی جسم کی نسبت تھوڑے سے اوپر ہوتے ہیں۔

سوزوکی اے 80 میں صارف کے لیے یہ سہولت بھی نہیں تھی۔ اس پر آپ گھڑسواری کے انداز میں ہی بیٹھ سکتے تھے، یعنی باقی جسم اوپر ہو گا اور ہاتھ نیچے کے رخ ہوں گے۔ گھڑی والی مثال سے سمجھنا ہے تو چار بجنے میں بیس منٹ پر سوئیوں کی جو پوزیشن ہوتی ہے بس وہ دماغ میں لے آئیں۔

ہماری والی موٹر سائیکل میں ایک سہولت اضافی تھی، اس کی سیٹ بالکل پتھر جیسی تھی اور گڑھوں میں جانے پر لگتی بھی اسی طرح تھی۔

قصہ اصل میں یہ ہوا کہ میرے پاس ایک سی ڈی 70 ہوا کرتی تھی۔ چھوٹے بھائی نے جب کالج آنا جانا شروع کیا تو اسے ایک سواری چاہیے تھی۔ بجٹ ٹائٹ ہونے کی وجہ سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ سوزوکی 80 لی جائے اور اسے تھوڑا سا موڈیفائے کر کے گزارہ چلایا جائے۔

وہ غریب کالج جانے سے زیادہ مستری کے پاس جانے لگ گیا۔ ہر پھیرے پہ مستری صاحب کہتے کہ آپ نے پیٹرول میں موبل آئل زیادہ مکس کروا لیا تھا، خاور غریب کو دو تین سال، جب تک وہ موٹرسائیکل رہی، پیٹرول اور موبل آئل کی ایسی ’گولڈن ریشو‘ سمجھ نہیں آ سکی کہ سواری بھی چلتی رہے اور مستری صاحب کا منہ بھی بند ہو جائے۔

اب نوبت یہ آ گئی تھی کہ جو دوست خاور کے ساتھ کالج جاتے تھے، واپسی پہ وہ بے چارے کسی الگ سواری کا بندوبست ڈھونڈتے کہ اسے تو پہلے مستری کا پھیرا لگانا ہو گا۔

بالآخر وہ موٹرسائیکل مستری صاحب کے یہاں ہی مستقل کھڑی کر دی گئی۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، ہم نے اسے فروخت کرنے کے پیسے بھی کوئی نہیں لیے، بس شکر ادا کیا کہ اب گھر کے فرش پر تیل کے بے شمار داغ نہیں ہوا کریں گے۔ خاور کہتا ہے کہ ہم نے پیسے لیے تھے لیکن بہت ہی کم قیمت پہ بیچا تھا۔

ہر دو صورت میں خس کم جہاں پاک والا سین تھا، بقول خاور ’یہ ایک برا خواب تھا جسے ہم لوگ یاد بھی نہیں کرنا چاہتے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ