شریفوں کی سواری ویسپا: نان ٹیکنیکل باتیں

ویسپے میں اچھے بنے ہوئے انجن کی نشانی یہ ہوتی تھی کہ وہ دانے گنتا تھا۔ یہ خالص مستریوں کی ٹرم تھی۔

یہ تصویر ممتاز مفتی کے اس ویسپا کی ہے جس کا ذکر ان کی تحریروں میں جا بجا ملتا ہے۔ ان کے صاحب زادے عکسی مفتی نے اس ویسپے کو 2019 میں دوبارہ وہی پرانی آب و تاب واپس لوٹا دی۔ عکسی مفتی اور اس یادگار ویسپے کی تصویر ان کی اجازت سے یہاں شامل کی گئی ہے۔ 

ویسپا اس زمانے میں شرافت کا عالمی معیار سمجھا جاتا تھا جب مجھے شریف لگنے کا ایک پرسنٹ بھی شوق نہیں تھا۔

گھر میں واحد سواری یہی ہوتی تھی اور ابو کا تصور اس کے بغیر ناممکن تھا۔ دور سے ویسپے کی آواز آتی، رکتا، ایکسیلیٹر دے کے لمبا سا ہارن بجایا جاتا اور اندر خبر ہو جاتی کہ دفتر سے واپسی ہو گئی۔ 

جیسے ہماری جناح کیپ ہے، کوئی غریب بندہ پہنے تو چپڑاسی کہہ کر چھیڑتے ہیں، امیر آدمی پہنے تو شکل سے نواب لگنا شروع ہو جاتا ہے۔ ویسپے کا یہی معاملہ تھا۔ غریب بندہ بیٹھتے ساتھ مسکین بھی لگنا شروع ہو جاتا اور امیروں کی شکل پہ الگ ہی نجابت ٹپکنے لگتی۔ جو انسان ویسپا سکوٹر پہ بیٹھ کے شریف نہ لگتا وہ پھر واقعی بستہ ب کا بدمعاش ہوتا تھا۔  

ویسپا اپنی ذات میں ایک مکمل پیکج تھا۔ سردیاں ہیں تو ٹانگوں کو ہوا سے بچائے گا، گرمیاں ہیں تو شلوار قمیص سکون سے اپنی جگہ پہ رہے گی، کوئی بھی حصہ پھڑپھڑاتا ہوا محسوس نہیں ہو گا۔ سامنے ہینڈل کے نیچے الگ باسکٹ لگی ہے، سبزی خریدیں اس میں ڈال لیں، پیروں کے پاس جو فرش ہے وہاں دس کلو والی دو بوریاں آٹے کی رکھی جا سکتی تھیں، سائیڈ ڈکی میں چھوٹا موٹا سب سامان کھل کے آ جاتا تھا۔ ٹائر پنکچر ہو جائے تو مزے سے سٹپنی نکالی اور لگا کے منزل کی طرف رواں دواں۔ پھر ویپسے کی سیٹ ایسی تھی کہ انسان پوری طرح تشریف رکھ کے، سیٹل ہو کے اسے چلانا شروع کرتا تھا۔ 

بیٹری تک کی ضرورت نہیں ہوتی، پوری سواری انجن سٹارٹ کرنے کے بعد خود ہی جاگ جاتی تھی، کیا ہارن، کیا بتی، سب ڈینمو بیسڈ تھے۔

ویسپے میں اچھے بنے ہوئے انجن کی نشانی یہ ہوتی تھی کہ وہ دانے گنتا تھا۔ یہ خالص مستریوں کی ٹرم تھی۔ یوں سمجھیں کہ ایک ویسپا ہے وہ بھرررررر بھر بھر بھرررر بھرررر کر کے چل رہا ہے۔ جو یہ دانے گننے والا ہوتا تھا، یہ ایسی آواز دیتا تھا، بھررر پک پک پک پک پک پک بھر ٹک ٹک ٹک (ٹے زبر ٹک) تو یہ جھنکار جو تھی یہ خاندانی قسم کے مستری اور ویسپے کی نشانی ہوتی تھی۔

پھر اس کے گئیرز کا مزہ تھا، پیر دونوں سکون میں ہیں، ہاتھوں سے ہی بریک لگا لیں، وہیں سے گئیر آگے پیچھے کر لیں۔ 

لیکن یہ سب چیزیں اس وقت ابو کو سمجھ آتی تھیں۔ اس کے برعکس میرا یہ خیال تھا کہ کسی کی بھی نوجوانی کے ستو مارنے ہیں تو بچے کے ہاتھ میں یہ سواری پکڑا دی جائے۔ مجھے ان فائدوں کی بجائے ڈھیر ساری خرابیاں نظر آتی تھیں۔

سب سے پہلے تو مسئلہ وہی کہ یہ سواری شریفوں کی تھی۔ جو مرضی کر لیں کہیں سے سے اس میں کوئی سٹائل نہیں مارا جا سکتا۔ پھر ویسپے میں ایک بار کھڑکا آ جائے تو سہولت سے جاتا نہیں تھا۔ ذرا سڑک خراب ہوئی اور پوری سواری چوں چوں لگی ہوئی ہے۔ اس کی لائٹ کا بڑا عذاب تھا۔ موڑ پہ آپ کو زیادہ روشنی چاہیے ہوتی ہے وہ موڑ پہ سلو سپیڈ کی وجہ سے بلب کو بھی موم بتی بنا دیتا تھا۔ اس سے بڑا پرابلم ویپسے کے ہارن کا تھا۔ جدھر بریک لگائی ہارن بھی سلو ہو گیا چونکہ بیٹری والا تو سسٹم ہی نہیں ہے۔ اب آپ چاہتے ہیں کہ موڑ پہ لمبی سی پی ی ی ی ی ی قسم کا ہارن بجے، جو ہارن بجتا تھا وہ بریک کے بعد سلو ہونے کی وجہ سے ایسے ہوتا تھا، پی ی ی ای ئی ئی ئی ای ای ای ی ی، تو اس میں ایک الگ ڈھیلے پن کی شرمندگی کا جہان آباد تھا۔ 

ویسپے کی پچھلی سیٹ پہ بیٹھا بندہ خواہ مخواہ مزاحیہ لگتا تھا۔ فل ٹانگیں کھول کے جیسے اونٹ یا گھوڑے پہ بیٹھا جاتا ہے، وہی حال پچھلے سوار کا ہوتا تھا۔ خواتین جیسے ایک سائیڈ پہ ٹانگیں رکھ کے بیٹھتی ہیں وہ پوز شاید ویسپے سے زیادہ کہیں سوٹیبل نہیں تھا۔ 

صبح صبح ویسپے کو جگانا خود اٹھنے سے زیادہ بڑا ایشو تھا۔ کبھی آپ نے ویسپا رکھا ہو تو وہ ایک آئیڈیا سا ہو جاتا ہے کہ یہ جو کک ماری ہے سٹارٹ کرنے کے لیے، یہ اندر کہیں لگی بھی ہے یا خالی گئی ہے۔ یہ ساتویں حس ویسپا خود بیدار کرتا ہے۔ خیر تو آٹھ دس بنجر ککس کے بعد ایک زرخیز کک والی کھنک سنائی دیتی تھی۔ لگتا تھا کہ استاد اب بس سٹارٹ ہو جائے گا، ہو بھی جاتا تھا لیکن یار تیرہ چودہ ککس لگانے کے بعد بندہ کس جوگا رہ جاتا ہے؟ ابو کہتے تھے چوک کھینچ لیا کرو، جلدی سٹارٹ ہو جائے گا، چوک الٹا مجھے کھینچ لیتا تھا۔ سو میں سے پچانوے دفعہ چوک کھینچنے پہ بس پہلے پیٹرول کی بو آتی، اس کے بعد ویسپا اوور۔ اب نیا کٹا گلے پڑ جاتا۔ سائیڈ سے انجن کھولو، پلگ نکالو، پیٹرول صاف کرو، پلگ کی خالی جگہ کپڑے سے پر کرو، پھر اس کپڑے پہ انگلی رکھ کے پانچ چھ ککس مزید مارو، تب جا کے انجن دوبارہ نارمل حالات میں سٹارٹ نہ ہونے کی پوزیشن پہ آئے گا۔ پھر اب جو دوبارہ بغیر چوک کھینچے ہی دولتیاں مارنی ہیں تو پہلے بندہ کیوں نہ محنت کر لے؟ 

ویسپا کہیں سے کول نہیں لگتا تھا۔ نیلا پٹک رنگ، آگے سے رکشہ نما پیچھے سے ۔۔۔ خود اپنے ہی جیسا شاید، ویسپے جیسا کیا ہو سکتا ہے جس کی بندہ مثال بھی دے۔ سٹینڈ پہ چڑھانا اتارنا بھی خالص بابوں والا کام تھا۔ موٹرسائیکل والے مزے کدھر کہ اترتے ہوئے ایسے پاؤں مارا، سٹینڈ گرایا، بائیک اٹکائی اور زپنٹو ۔۔۔ ادھر تو پہلے سکوٹر کا ہینڈل تھام کے خود اترو، پھر اگلی گدی کے نیچے ہاتھ دو، پھر ڈبل سٹینڈ کو پیار سے زمین تک لاؤ، پھر جیسے بکرے کو کان سے کھینچتے ہیں، عین ویسے ہینڈل سے زیادہ اور گدی والی پکڑ سے کم زور لگا کر، پیچھے کی طرف کھینچ کے سٹینڈ پہ چڑھاؤ، اس کے بعد ویسپے کی گردن میں چابی ڈال کے لاک لگاؤ، تب چھٹی ملے گی۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ویپسے میں پیٹرول ڈلوانے والا کام بھی بڑا تکلیف دہ تھا۔ موٹرسائیکل میں تو یہ سامنے ہاتھ گھمایا ٹینکی کھول دی۔ ادھر وہ لطف بھی کہاں بھائی۔ پہلے اترو، پھر اوپر دیے گئے طریقے سے ویسپا جان کو کھڑا کرو، پھر اگلی گدی اور پچھلی گدی کے درمیان والی جگہ سے پیٹرول کی ٹینکی کھولو۔ وہ ایسی واہیات جگہ تھی کہ سوار اگلا ہو یا پچھلا، دونوں کو پیٹرول ڈلوانے باجماعت اترنا پڑتا۔ پچھلا بیٹھنے کی ضد پکڑتا تو قمیص کا دامن بھی منہ میں ساتھ پکڑنا پڑتا کہ پیٹرول تو ڈلنا ہے، ساتھ موبل آئل کیکُپی جو آ رہی ہے، اس سے کپڑے کیسے بچیں گے۔ جی ہاں میں ہوں کھل نائیک۔ ویسپے میں پیٹرول کے ساتھ تیل الگ سے ملا کے ڈالنا پڑتا تھا۔ مطلب باقاعدہ ایسا منظر ہوتا تھا جیسے کسی نالائق بچے کا باپ کالج میں پروفیسر سے ملنے آئے۔ باقی بچے ہنسے خوشی گزر رہے ہیں، آپ نالائق اولاد کے سر پہ کھڑے پیٹرول ڈالنے والوں سے رازونیاز کر رہے ہیں۔ پانچ موٹر سائیکلوں والے اتنی دیر میں دو سو روپے کا پیٹرول ڈلوا لیتے جتنی دیر میں پمپ والاکُپی بھر کے لا رہا ہوتا، دس کا تو بہرحال ساتھ موبلائل پڑنا ہوتا تھا۔ 

مزے کی بات یہ ہے کہ پیٹرول ڈل گیا، اب جتنی مرضی ٹائٹ سیل لگی ہو ڈھکن پہ، پیٹرول باقاعدہ لیک بھی کرے گا۔ اگلے سوار کا پچھلا دامن، پچھلے سوار کا اگلا دامن اور خود ویسپے کا پینٹ، ہر تین چیزیں چوبیس گھنٹے سٹیک پہ ہوتی تھیں۔ لوگوں نے ویسپے کے پیٹرول ڈھکن پہ شاپر چڑھائے ہوتے تھے کہ یہ سپلیج رک جائے لیکن کہاں؟ نیٹ پہ جا کے دیکھ لیں، گوروں کے ساتھ بھی ویسپوں میں فیول سپیلج کا یہی عالم گیر مسئلہ رہا ہے، ہم تو پھر فانی پاکستانی ہیں۔ 

ویسپے ویسے اٹلی نے بھی ایسے پیارے نہیں بنائے جیسے پٹھان تیار کرتے تھے۔ سامنے الگ سے ونڈ سکرین، اگلے مڈگارڈ پہ کچھ بھی کلغی نما، باڈی کی چاروں طرف جتنی زیادہ ممکن ہے سٹیل کی گرل، ہینڈل کی دونوں طرف رنگین بید سے گرپ لگوانا، بریک بھی اسی بید کی، فرنٹ لائٹ کے آگے دھوپ سے بچانے جیسا ٹوپی ٹائپ شیڈ، فل طاقتور ہارن، اگلی باسکٹ کی جگہ ٹیپ ریکارڈ، سیٹوں کی پوشش لگژری صوفوں جیسی بٹنوں والی، فٹ میٹ کی جگہ قالین، ایک لیول اوپر کوئی گیا تو ٹرک آرٹ والے سٹیکر، مطلب بھائی ان کا ویسپا پوری گاڑی ہوتا تھا۔ 

اب ویسپا ایک مرحوم سواری ہو چکا ہے۔ میں اس عمر کا ہوں جس میں ابو نے ویسپا بیچا تھا۔ مجھے اب ویسپا فیسینیٹ کرتا ہے۔ میرا دل چاہتا ہے کوئی سجا سنورا، دانے گنتا، کلاسیکل پینٹ اور نئے ٹائروں والا ویسپا میرے پاس ہو۔ ذیشان نے دو تین دن پہلے فون کیا اور کہا کہ یار میرا پروگرام ہے کوئی سریلا ویسپا خریدنے کا، کوئی اچھا سا ڈھونڈ۔ کم جوان دی موت ہے، جتھے کم اتھے ساڈا کی کم؟ تو بس ڈھونڈوں گا تو جب وہ دیکھا جائے گا، فی الحال دل میں ویسپے اچھل رہے ہیں۔ نجف خان کہتا تھا حسنین جمال تو ہر چار پانچ سال بعد کوئی ایک احمقانہ کام کرتا ہے، وہ اسے چے پیش ل چُل کا نام دیتا تھا۔ اس نے باقاعدہ سات آٹھ چُلیں یاد بھی رکھی ہوئی تھیں۔ 

نجف خانا، حسنین جمال بھی وہی ہے، چُلیں بھی وہی ہیں، دل بھی کرتا ہے پر تیرا بھائی ویسپا نہیں لے گا۔ ذیشان کو ڈھونڈ دے گا، خود نہیں لے گا یار۔ اب چُل افورڈ نہیں ہوتی۔

(خدا میری زبان مبارک کرے اور میں اپنے ارادے پہ قائم رہتا ہوا اس سمیت ہر چھوٹی بڑی چُل سے بچ سکوں۔ آمین)

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ