میں اور میری تنہائی اکثر یہ باتیں کرتے ہیں

خدا جانتا ہے کہ آج میں نے بجلی کے بڑھتے ہوئے بِلوں کے بارے میں لکھنا تھا لیکن میں کیا کروں، لکھنے بیٹھتا ہوں تو قلم خود بخود چلنے لگتا ہے۔

اپنی انہی تلخ اور زہریلی باتوں کی وجہ سے لوگ مجھ سے حسد بھی کرتے ہیں اور میرے خلاف پروپیگنڈا بھی (تصویر: اینواتو)

سچ پوچھیں تو میرا ارادہ تھا کہ آج میں آپ کو اپنی ذات کے ان پہلوؤں سے آگاہ کروں جن سے صرف میرا لاشعور بلکہ تحت الشعور واقف ہے اور بتاؤں کہ میں کس قدر عجیب و غریب، محیر العقول اور دخل در معقول قسم کی خصوصیات کا حامل انسان ہوں۔

مجھ میں کیسے کیسے گن ہیں، میں کتنا عظیم ہوں، میں نے کتنی دنیا دیکھی ہے، کتنی کتابیں پڑھی ہیں، کس قسم کے مشہور لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر گپیں ہانکی ہیں، میرا ہاضمہ کتنا اچھا ہے، میں رات کو قیلولہ کر سکتا ہوں، میرے معمولات میں ڈسپلن ہے، یعنی میں روزانہ سات بج کر 54 منٹ پر آئینے میں اپنی شکل دیکھتا ہوں۔

اللہ نے چونکہ حسن بہت دیا ہے اس لیے آٹھ بج کر چھ منٹ پر اپنی نظر بھی اتارتا ہوں اور سب سے بڑا ہنر جو میرے پاس ہے اور جس پر آج تک میں نے غرور نہیں کیا وہ یہ کہ میں 30 سیکنڈ سے بھی کم وقت میں اپنے جوتوں کے تسمے بند کر سکتا ہوں۔

یہ تکنیک مجھے روانڈا کے ایک قصبے مائی پھیرو کی ایک لڑکی نے سکھائی تھی، وہ اللہ لوک آج بھی وٹس ایپ پر مجھے اپنی تصویریں بھیجتی ہے، کچھ عرصہ اگر اس کا میسج نہ آئے تو میں پریشان ہو کر اسے دو چار ہزار کا ایزی لوڈ کروا دیتا ہوں اور اپنے اکاؤنٹنٹ کو کہتا ہوں کہ یہ پیسے میری زکوٰة کے کھاتے میں ڈال دو۔

اللہ کو جان دینی ہے، میں تو اپنے مخیر ہونے کی تشہیر بھی نہیں کرتا۔

میں اگر کسرِ نفسی سے کام لوں تو بھی اپنی شخصیت کے تمام پہلوؤں کو اجاگر کرنے کے لیے مجھے کم از کم دس صفحے کالے کرنے پڑیں گے۔ میرے ایک حاسد دوست نے، جو کہ میرے تحت الشعور سے واقف ہے، یہ بات سن کر کہا کہ اتنا ’کشٹ‘ کرنے کی بجائے اگر تم ویسے ہی دس صفحوں پر سیاہی پھیر دو تو وقت بھی بچے گا اور لوگوں کو تمہیں جاننے میں آسانی ہو گی۔

یقیناً آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ دوست کو حاسد کب لکھا جاتا ہے۔ اس قسم کے حاسدانہ جذبات کی وجہ سے میں اپنے بارے میں لکھنے سے پرہیز کرتا ہوں مگر پھر سوچتا ہوں کہ میری یہ عاجزی مستقبل کے محققین کے لیے مشکلات کا سبب بنے گی۔

آپ جیسے صاحبانِ علم تو جانتے ہیں کہ یہ دور پبلک ریلیشننگ کا ہے، حقیقی دانشوروں کو کون پوچھتا ہے۔

ابھی کل ہی میری نوم چومسکی سے بات ہو رہی تھی، وہ غریب بھی یہی رونا رو رہا تھا۔ پچھلے سال اسے بھلوال پریس کلب والوں نے مدعو کیا تھا، ٹکٹ کا وعدہ بھی کیا تھا مگر پھر بات آ گئی ہو گئی۔ چومسکی کی جگہ انہوں نے اللہ دتہ لونے والے کو بلا لیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈیڑھ لاکھ کی ’ویلیں‘ ہوئیں۔ میں نے چومسکی سے کہا کہ انگریزی کا محاورہ ہے کہ تم میری کمر کھجاؤ میں تمہاری کمر کھجاتا ہوں۔ با محاورہ ترجمہ کرنا میری ایک اضافی صلاحیت ہے جس پر میں نے کبھی غرور نہیں کیا۔ میر کا کیا بر محل مصرع یاد آ گیا ؎ ’میں بھی کبھو کسو کا سر پر غرور تھا‘

ویسے اس مصرعے میں زبان کی غلطیاں ہیں مگر جانے دیجیے، اساتذہ کا لحاظ بھی کوئی چیز ہے۔

اب دیکھیے نہ نہ کرتے بھی ایک آدھ صفحہ اپنی ذات کے بارے میں لکھا گیا ہے، حالانکہ میرا خدا جانتا ہے کہ آج میں نے بجلی کے بڑھتے ہوئے بِلوں کے بارے میں لکھنا تھا۔ مگر میں کیا کروں، لکھنے بیٹھتا ہوں تو قلم خود بخود چلنے لگتا ہے۔ ؎ نے ہاتھ ہے قلم پہ نہ پا ہے رکاب میں

قلم برداشتہ غالباً اسی کو کہتے ہیں، یہ ترکیب بھی ویسے غلط ہے، بھلا داشتہ کا قلم سے کیا رشتہ! اور رہی بات بجلی کے بِلوں کی تو مجھے سمجھ نہیں آتی کہ اس قدر واویلا کس بات کا ہے، لوگ رو رہے ہیں کہ ایک ایئر کنڈیشنر کے ساتھ 40 ہزار بِل کیسے آ گیا۔

بندہ پوچھے تم اے سی چلاتے ہی کیوں، کون سا غریب بندہ ہے جو اے سی کا متحمل ہو سکتا ہے؟ آج سے 40 سال پہلے کتنے گھروں میں ایئر کولر بھی تھا، پنکھا ہوتا تھا اور وہ بھی تب چلتا تھا، جب بجلی آتی تھی اور ہم اللہ کا شکر ادا کرتے تھے، رات کو مکان کی چھت پر تارے گِن گِن کر سوتے تھے۔

آج اے سی کی عیاشی بھی چاہیے اور بِل بھی دس ہزار سے کم آوے، واہ!

آج میں نے بجلی کے بڑھتے ہوئے بِلوں کے بارے میں لکھنا تھا۔ مگر میں کیا کروں، لکھنے بیٹھتا ہوں تو قلم خود بخود چلنے لگتا ہے، نے ہاتھ ہے قلم پہ نہ پا ہے رکاب میں۔

لیجیے صاحب، میں پھر موضوع سے بھٹک گیا، اپنی انہی تلخ اور زہریلی باتوں کی وجہ سے لوگ مجھ سے حسد بھی کرتے ہیں اور میرے خلاف پروپیگنڈا بھی۔

گذشتہ دنوں روزنامہ ’کالک‘ میں ایک صاحب نے میرے بارے میں مضمون لکھا کہ میں خود کو طرم خان سمجھتا ہوں، کسی سے سیدھے منہ بات نہیں کرتا اور میرے مضامین میں ’میں میں‘ کی اس قدر تکرار ہوتی ہے کہ بندہ عاجز آ جاتا ہے۔

انہوں نے ایک مضمون کا حوالہ دے کر الزام لگایا کہ اس میں، میں نے لفظ ’میں‘ 36 مرتبہ استعمال کیا۔ اب بندہ اس قسم کے loosers کو کیا جواب دے۔ جن صاحب نے یہ مضمون لکھا ان کی نیلا گنبد میں سیکنڈ ہینڈ ٹائروں کی دکان ہے اور ساتھ میں وہ خفیہ طور پر انگریزی کے باتصویر رسالے بھی فروخت کرتے ہیں، جس کی آمدنی ٹائروں سے زیادہ ہے۔

میں نے ایک مرتبہ یونہی ادب کی سرپرستی کی غرض سے دو چار رسالے خرید لیے تاکہ دیکھ سکوں کہ عالمی ادب میں کیا نئے رجحانات چل رہے ہیں، دو چار ہفتے بعد واپس کرنے گیا تو موصوف پھیل گئے، کہنے لگے، ’یہ قابل واپسی نہیں۔‘

بس اسی دن سے میرے خلاف زہریلے پروپیگنڈے میں مصروف ہیں۔ رہی بات اپنے مضامین میں ’میں‘ کی تکرار کی تو جس مضمون کا موصوف نے ذکر کیا ہے اس میں لفظ ’میں‘ 36 بار نہیں فقط 30 مرتبہ استعمال ہوا ہے۔

میر صاحب پھر یاد آئے ؎ ’پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے، جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے۔‘

اتفاق کی بات دیکھیے جن صاحب نے مضمون میں ہزرہ سرائی کی ان کا نام بھی محمد بوٹا ہے لیکن خود کو ایم بی عدم لکھتے ہیں۔

اس مضمون کو ختم کرنے کو دل تو نہیں چاہ رہا۔ جیسا کہ میں نے شروع میں کہا میں اپنی عاجزانہ، مخلصانہ، معاندانہ، سلطانہ اور ہمدردانہ طبیعت پر کم ازکم دس صفحے مزید لکھ سکتا ہوں مگر فی الحال مدیر مسئول کی الفاظ کی قید آڑے آ رہی ہے (یہ لفظ مدیر مسئول نہ جانے کیوں مجھے ایسے لگتا ہے جیسے مدیر کسی سٹول پر بیٹھا ہو)۔

آخر میں ’پنچ لائن‘ کے طور پر میں صرف اتنا ہی کہوں گا کہ میں اور میری تنہائی اکثر یہ باتیں کرتے ہیں، میں ہوتا تو کیسا ہوتا، میں یہ کہتا، میں وہ کہتا، میں اس بات پر حیران ہوتا، میں اس بات پر کتنا ہنستا، میں ہوتا تو ایسا ہوتا، میں ہوتا تو ویسا ہوتا، میں اور میری تنہائی اکثر یہ باتیں کرتے ہیں!

کالم کی دم: اس مضمون میں لفظ ’میں‘ 30 سے کم مرتبہ استعمال ہوا ہے، روزنامہ کالک کے مدیر صاحب نوٹ فرما لیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ