پاکستان کی مارکیٹنگ کا صحیح طریقہ

میں نے اس معاملے پر کافی غور و خوض کیا ہے اور ایک حوض میں بیٹھ کر اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہم بھی اپنے ملک کا پاسپورٹ بیچ سکتے ہیں مگر اس کے لیے ہمیں ’آؤٹ آف باکس‘ سوچنا ہو گا۔

سیاح 20 فروری 2021 کو مردان میں تخت بائی کے بدھ خانقاہی احاطے کا دورہ کر رہے ہیں (اے ایف پی)

سینٹ کیٹس اینڈ نیوس ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے جو ویسٹ انڈیز میں واقع ہے، اس کا کُل رقبہ سو مربع میل جبکہ آبادی 50 ہزار نفوس پر مشتمل ہے اور سب سے بڑے شہر اور دارالحکومت میں فقط 14 ہزار لوگ رہتے ہیں۔

یہ جزیرہ دولت مشترکہ کا رکن ہے اور اپنے پاسپورٹ کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ چار افراد پر مشتمل گھرانہ ڈیڑھ لاکھ ڈالر میں اس ملک کا پاسپورٹ خرید سکتا ہے، جس کے بعد انہیں دنیا کے 160 ممالک بشمول یورپی یونین کے لیے ویزے کی ضرورت نہیں رہتی۔

مجھے آج تک سمجھ نہیں آسکی کہ اس ملک کے پاس آخر کون سی گیدڑ سنگھی ہے جس کی وجہ سے اس کے پاسپورٹ کو اتنی چھوٹ حاصل ہے، حالانکہ اس کے خلاف منی لانڈرنگ کے الزامات لگتے رہتے ہیں، انہی الزامات کی وجہ سے کینیڈا نے اب اس ملک کے لیے ویزا لازمی کر دیا ہے۔

سینٹ کیٹس اینڈ نیوس کی طرح دنیا میں اور بھی بہت سے ملک ہیں، جو یہ کام کرتے ہیں اور اپنے ملک میں سرمایہ کاری راغب کرنے کے لیے اس قسم کے وی آئی پی پاسپورٹ کا لالچ دیتے ہیں۔

بد قسمتی سے ہمارا ملک ان میں شامل نہیں کیونکہ ہمارے پاسپورٹ پر سوائے ان ممالک کے جہاں خانہ جنگی ہو رہی ہے، ہر ملک کا ویزا ضروری ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں اور اپنے ملک میں سرمایہ کاری اور سیاحت کے فروغ کے لیے کچھ نہ کریں۔

میں نے اس معاملے پر کافی غور و خوض کیا ہے اور ایک حوض میں بیٹھ کر اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہم بھی اپنے ملک کا پاسپورٹ بیچ سکتے ہیں، مگر اس کے لیے ہمیں ’آؤٹ آف باکس‘ سوچنا ہو گا۔  آؤٹ آف باکس کا مطلب ہے کسی پیچیدہ معاملے کا ایسا اچھوتا حل تلاش کرنا جو بظاہر مضحکہ خیز اور ناقابل عمل لگے اور حقیقت میں بھی ایسا ہی ہو۔

آپ نے اکثر ممالک کی ویب سائٹس دیکھی ہوں گی جن میں وہ اپنے ملک کے سیاحتی مقامات، سہولیات، امن و امان اور خوش حالی کی تصویر کشی کرکے لوگوں کو سرمایہ کاری اور شہریت کے حصول کی ترغیب دیتے ہیں۔ ہمیں بھی انہی خطوط پر سوچنا چاہیے اور دنیا کو بتانا چاہیے کہ جو سہولیات ہمارے ملک میں مل سکتی ہیں وہ دنیا کے کسی اور ملک میں اس قیمت پر نہیں مل سکتیں۔  

مثلاً سوئٹزرلینڈ میں امیر لوگ جب بڑھاپے میں کسی بیماری میں مبتلا ہوجاتے ہیں تو وہ اچھے خاصے پیسے دے کر اپنی موت ’خرید‘ لیتے ہیں، سوئٹزرلینڈ میں یہ کام قانونی ہے اور اس مقصد کے لیے وہاں کلینک کھلے ہیں، جن کا انہوں نے بھلا سا نام رکھ چھوڑا ہے، یعنی  Assisted Dying Facility۔

نام سن کر یوں لگتا ہے جیسے یہاں کپڑوں کو رنگنے کا کام تسلی بخش کیا جاتا ہوگا جبکہ حقیقت وہی ہے جو میں نے بیان کی ہے۔ اب بندہ پوچھے کہ پاکستان اپنی مارکیٹنگ کیوں نہیں کرتا، اپنے ہاں تو چپے چپے پر یہ سہولت دستیاب ہے، آپ شہر سے باہر جانے والی کسی بھی بس میں بیٹھ جائیں، آپ نے فقط ٹکٹ کے پیسے دینے ہیں جو دس فرانک بھی نہیں بنیں گے، بس اس کے بعد آپ کا اللہ ہی حافظ ہے۔ قسمت میں ہوا تو بس ڈرائیور آپ کی موت میں معاون ثابت ہوگا اور اگر کہیں آپ بچ گئے تو بھی تمام عمر آپ کو یہ سفر نہیں بھولے گا کہ ایسا ایڈونچر دنیا میں اور کہیں نہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اب بھلا بتائیں کہ یہ تمام تفریحات اگر امریکہ، برطانیہ یا سوئٹزر لینڈ میں ہوں تو کتنے ڈالر، پاؤنڈ یا فرانک لگیں گے! اور اپنے ہاں یہ سب کچھ مفت ہے مگر بات وہی کہ گھر کی مرغی دال برابر۔

کاروبار کے حوالے سے بھی جس قسم کا ماحول ہمارے ملک میں دستیاب ہے ویسا پورے ہند سندھ میں کہیں نہیں، اس کے باوجود نہ جانے کیوں ہم بیرونی سرمایہ کاری کو راغب نہیں کرسکے۔

وجہ وہی ہے کہ ہماری مارکیٹنگ خراب ہے اور ہم دنیا کو یہ باور نہیں کروا سکے کہ ہمارے ملک میں کاروبار پر ٹیکس ہے اور نہ بجلی کا کوئی خرچہ۔ آپ لوگ بھی حیران ہوں گے کہ یہ میں نے کیا بات کر دی۔ چلیے میں سمجھاتا ہوں۔ آپ کسی دن لاہور، کراچی یا فیصل آباد کے ان علاقوں میں جائیں جو شہری آبادیوں سے ذرا پرے ہیں، آپ دیکھیں گےکہ وہاں ذہین کاروباری افراد نے چھوٹے چھوٹے مکان کرائے پر لے کر فیکٹریاں بنائی ہوئی ہیں۔ ان فیکٹریوں میں کوکا کولا سے لے کر ڈسپرین تک سب کچھ تیار کیا جاتا ہے۔

دنیا میں اگر کوئی کمپنی ایک وقت میں ایک پراڈکٹ میں کمال حاصل کرلے تو اس کامیابی پر ہاورڈ میں کیس سٹڈی کروائی جاتی ہے جبکہ ہمارے ہاں چھوٹی چھوٹی فیکٹریوں میں بیک وقت صابن، کیپسول، کھانسی کا شربت، سگریٹ، بوتلیں اور نہ جانے کیا کیا  تیار کیا جاتا ہے مگر ہاورڈ تو کیا نارووال یونیورسٹی بھی انہیں نہیں پوچھتی۔ صرف یہی نہیں بلکہ ان فیکٹریوں کو خاص چھوٹ حاصل ہے، یہ ٹیکس دیتی ہیں اور نہ بجلی کا بل، ملازمین کی تنخواہیں بھی بس واجبی قسم کی ہیں۔ ان کا اصل خرچہ متعلقہ محکمے کے ضرورت مند ملازمین کی کفالت ہے اور یہ کام فیکٹری مالکان نہایت خوش اسلوبی سے کرتے ہیں۔ اب آپ ہی بتائیں ایسا کاروباری ماحول آپ کو دنیا میں کہاں ملے گا؟

آپ یقین کریں کہ جب میں یہ باتیں سوچتا ہوں تو دل خون کے آنسو روتا ہے، مجھے سمجھ نہیں آتی کہ آخر اتنے ٹیلنٹ کے باوجود ہم ترقی کیوں نہیں کر سکے۔ بہت سوچ بچار کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اصل وجہ مارکیٹنگ ہے، ہم اپنے ملک کی مناسب انداز میں تشہیر نہیں کر سکے، لہذا اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ حکومت ایک علیحدہ محکمہ بنائے جس کا کام مندرجہ بالا خطوط پر ملک کی مارکیٹنگ کرنا ہو، اس محکمے کا سربراہ دنیا کے مختلف ممالک کے دورے کرے اور وہاں جا کر لوگوں کو بتائے کہ پاکستان میں کس کس قسم کی نادر سہولیات دستیاب ہیں، یہ عہدہ وفاقی وزیر کے برابر ہونا چاہیے۔

ویسے تو میں آج کل خاصا عدیم الفرصت ہوں لیکن ملک کی خاطر کچھ وقت نکالنے کو تیار ہوں۔ آخر اس ملک کا بھی ہم پر کچھ حق بنتا ہے!

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ