کراچی کی آبادی 20 کروڑ ہے!

70 اور 80 کی دہائی میں کراچی کی چکاچوند ایسی تھی کہ پیش گوئی کی جاتی تھی کہ یہ ہانگ کانگ اور سنگاپور کو پیچھے چھوڑ دے گا، مگر پھر کراچی کو اپنی ہی نظر لگ گئی۔

یکم مارچ 2023 کی اس تصویر میں ادارہ برائے شماریات کے اہلکار کراچی میں  گھر گھر جاکر مردم شماری کے اعداد و شمار جمع کرتے ہوئے (فائل تصویر: اے ایف پی)

دو باتیں سن سن کر کان پک گئے ہیں۔ اول، پاکستان کے 70 فیصد محصولات کراچی سے آتے ہیں جس کی وجہ سے ملک چلتا ہے۔ دوم، مردم شماری میں کراچی کی آبادی درست نہیں دکھائی گئی۔

اس سے پہلے کہ آپ مجھے بغضِ کراچی کا طعنہ دیں، میں یہ واضح کر دوں کہ مجھے کراچی  بےحد پسند ہے، لاہور کے بعد اگر میں کسی شہر میں رہنا چاہوں گا تو وہ کراچی ہو گا۔ 70 اور 80 کی دہائی میں کراچی کی چکاچوند ایسی تھی کہ اس شہر کے بارے میں پیش گوئی کی جاتی تھی کہ یہ ہانگ کانگ، سنگاپور، جکارتہ وغیرہ کو پیچھے چھوڑ دے گا مگر پھر کراچی کو اپنی ہی نظر لگ گئی۔

تاہم اب بھی کراچی میں پورا دم خم ہے اور وہ ان شہروں کو پچھاڑ سکتا ہے مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ۔ کراچی والوں کی کاروباری سمجھ بوجھ ضرب المثل ہے جبکہ لاہور والوں کا یہ حال ہے کہ کروڑوں کا سودا کرتے وقت بھی کچھ طے نہیں کریں گے، اگر کوئی بہت اصرار کرے گا تو جواب میں کہہ دیں گے ’شہزادے، جیویں کہو گے کرلاں گے۔‘ (شہزادے، جیسے کہو گے ہم ویسے کر لیں گے)۔

کراچی واپس آتے ہیں۔ 70 فیصد محصولات والی بات میرا موضوع نہیں ہے، بس اتنا کہنا کافی ہے کہ یہ اعداد و شمار کسی سرکاری دستاویز سے ثابت نہیں ہوتے۔ اصل میں ہمارے کراچی والے بھائی پاکستان کی ان تمام وصولیوں کو بھی اپنے کھاتے میں لکھ لیتے ہیں، جو امپورٹ کی غرض سے کراچی میں جمع ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ ریوینیو کراچی کا نہیں، یہ تو فقط کراچی بندرگاہ کی بدولت ہے جہاں پورے ملک کا درآمد شدہ مال آتا ہے۔

خیر یہ بحث پھر کسی وقت کر لیں گے، آج کراچی کی مردم شماری کی بات کرتے ہیں۔ آج سے چار پانچ سال پہلے کراچی کے رہنما ٹی وی پروگراموں میں یہ بات تواتر اور یقین کے ساتھ کہتے تھے کہ ’دیکھیے کراچی تین کروڑ آبادی کا شہر۔۔۔‘ اور اس کے بعد کراچی کے مسائل کا بیان شروع کر دیتے تھے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت شنگھائی کی آبادی تین کروڑ نہیں تھی، جب ہمارے بھائی کراچی کی آبادی 30 ملین بنا کر بیٹھ جاتے تھے۔ آج کل چونکہ مردم شماری جاری ہے، سو روزانہ ایک آدھ بیان نظر سے گزرتا ہے کہ کراچی کی آبادی کو درست طریقے سے گنا نہیں جا رہا۔

حالانکہ پورے ملک کی مردم شماری مکمل ہو چکی ہے، کسی اور شہر کی طرف سے یہ شکایت نہیں آئی، لیکن کراچی والوں کی تسلی ہی نہیں ہو پا رہی۔

کبھی کبھی تو مجھے یوں لگتا ہے کہ پاکستان کہ آبادی 22 کروڑ ہے جبکہ اکیلے کراچی کی آبادی 20 کروڑ ہے۔ تازہ خبر یہ ہے کہ اس مردم شماری میں پورے ملک کی آبادی میں چھ کروڑ کا اضافہ ہوا ہے۔ میری تجویز ہے کہ ہمارے کراچی کے بھائی بہنوں کی دل جوئی کی خاطر یہ چھ کروڑ کی آبادی کراچی کے کھاتے میں لکھ دیں، شاید انہیں کچھ افاقہ ہو جائے۔

ایک مرتبہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے سرکار نے کسی جلسے کا اہتمام کیا۔ اس جلسے میں اقلیتی فرقے کے رہنما نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ’میں اپنی برادری کے دس کروڑ لوگوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ فرقہ وارانہ اختلافات کو پس پشت ڈال کر اتحاد و یگانگت کی تحریک چلائیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جواب میں اکثریتی برادری کے لیڈر نے اپنی تقریر کچھ اس قسم کے الفاظ سے شروع کی کہ ’میں بھی اپنی برادری کے 70 کروڑ افراد سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ فرقہ وارانہ اختلافات بھلا کر مل جل کر رہیں۔‘ یوں بیٹھے بٹھائے پاکستان کی آبادی 80 کروڑ ہوگئی۔

مذاق ایک طرف، جس رفتار سے ہماری آبادی بڑھ رہی ہے، وہ وقت دور نہیں جب کراچی حقیقتاً ٹوکیو، دہلی اور شنگھائی کو پیچھے چھوڑ دے گا۔ آبادی کا یہ تمغہ ہم اپنے سینے پر سجا تو لیں گے مگر بالآخر اسے ستر پوشی کے لیے بھی استعمال کرنا پڑے گا کیونکہ (dust be in my mouth) ہمارے پاس پہننے کے لیے کپڑے بھی نہیں ہوں گے۔

میں نے جب سے یہ خبر پڑھی ہے کہ پانچ برس میں ہماری آبادی میں چھ کروڑ کا اضافہ ہوگیا ہے، میں ہِل کر رہ گیا ہوں۔ انگریزی میں ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے جسے Youth Bulge کہتے ہیں، پاکستان میں چونکہ نوجوان تعداد میں سب سے زیادہ ہیں، تو اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ یہ نوجوان ملک کی تقدیر کا فیصلہ کریں گے۔

اگر میں خوش فہمی کی انتہا پر پہنچ جاؤں تو بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ Youth Bulge ملک کی ترقی کا باعث بنے گا۔ اسی طرح اکثر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اتنی زیادہ آبادی والے ملک میں غیر ملکی کمپنیاں سرمایہ کاری ضرور کرتی ہیں کیونکہ انہیں اپنی مصنوعات فروخت کرنے کے لیے بڑی منڈی مل جاتی ہے۔ یہ بات کسی حد تک تو درست ہے مگر یہ کمپنیاں کسی کنگال ملک میں نہیں آتیں جہاں لوگوں کے پاس کوئی چیز خریدنے کے پیسے ہی نہ ہوں۔

معافی چاہتا ہوں بات کراچی کی آبادی سے ملک کی آبادی کی طرف نکل گئی۔ میری رائے میں ملک میں جاری مردم شماری کو فوری طور پر منسوخ کر دینا چاہیے اور نئی مردم شماری کروانی چاہیے اور یہ مردم شماری اس وقت تک جاری رہنی چاہیے جب تک کراچی کی آبادی 20 کروڑ رپورٹ نہیں کی جاتی۔

جہاں ملک میں باقی کام ’قانون کے مطابق‘ ہو رہے ہیں، وہاں ایک یہ کام بھی ’آئین کے مطابق‘ ہو جائے گا تو کیا حرج ہے!

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر