سپریم کورٹ: ’جج دلوں میں طوفان دبائے بیٹھے ہیں‘

سپریم کورٹ کے کالے کوٹ والے اولڈ بوائز کہتے ہیں کہ جسٹس قاضی فائز کا کیس مضبوط ہے، بس یہ کیس فل کورٹ بینچ کے سامنے لگ جائے ، اور اسے تحمل سے لڑا جائے تو  صدارتی ریفرنس  کو پچھاڑا جاسکتا ہے۔

سپریم کورٹ کے کالے کوٹ والے اولڈ بوائز کہتے ہیں کہ جسٹس قاضی فائز کا کیس مضبوط ہے، بس یہ کیس فل کورٹ بینچ کے سامنے لگ جائے(اے ایف پی)

تقریبات کے لیے بنایا گیا سپریم کورٹ کا مرکزی ہال  کتنے ہی ججز کو رخصت ہوتے دیکھ چکا  ہے۔ یہ کشادہ ہال تنگ نظر نفوس کو پہچانتا ہے اور اپنی بساط سے بڑھ کر  ملکی عدلیہ کے لیے کچھ کر گزرنے والے ججز  اور وکلاءکو بھی خوب جانتا ہے۔

یہ ہال ججز کا بائیکاٹ ہوتے بھی دیکھ چکا ہے اور گلدستوں اور پھولوں کے جھرمٹ میں کسی جج کی رخصتی کا بھی شاہد ہے۔ اسی ہال میں  پانامہ کیس کا فیصلہ دینے والے ایک اور جج جسٹس شیخ عظمت سعید کی ریٹائرمنٹ پر ایک عشائیہ ہوا، ایسا عشائیہ جس میں شریک ہر شخص دوسرے  ساتھی سے روٹھا  روٹھا سا نظر آیا۔ یہ عشائیہ اس ماحول کا عکاس ہے جس سے آج کل پاکستان کی اعلیٰ  عدلیہ گزر رہی ہے۔

پاکستان بار کونسل کے وائس چئیرمین سید امجد شاہ نے منگل کی صبح فل کورٹ ریفرنس میں چیف جسٹس سمیت تمام ججز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’ہر جانب گھٹن ہے، اختلافی آوازیں دبائی جارہی ہیں اور جھوٹے مقدمات میں الجھایا جارہا ہے، یہی بات سپریم کورٹ کے مجموعی ماحول پر طاری ہے۔‘

جسٹس عظمت کے اعزاز میں عشائیہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی جانب سے دیا گیا ۔ ہم صحافی دوست ججز کی ٹیبل کے بالکل ساتھ ہی بیٹھے ان کے چہرے پڑھ رہے تھے۔  ہال کے عین وسط میں ججز کے  لیے نشستوں کا ایک بڑا سا ہالہ بنایا گیا تھا، سابق چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے  تمام ججز صاحبان وہاں بیٹھے،  جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور دو ساتھی  ججز،  وکلا کے لیے لگائی گئی  الگ ٹیبل پر جابیٹھے۔

ناصر اقبال سپریم کورٹ کوریج کرنے والوں کے باوا آدم ہیں، وہ گردن موڑ کر ججز کی جانب مسلسل  دیکھتے دیکھتے تھک گئے تو کہنے لگے آپ نے صوفی کلام سنا ہے’کی حال سناواں دل دا، کوئی محرم راز نہ ملدا۔‘ ناصر صاحب نے یہ شعر اعلیٰ عدلیہ کے ججز کے نام کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ میں جیسا گھٹن کا ماحول  آج ہے ایسا کبھی نہ تھا، ججز  دل میں طوفان دبائے بیٹھے ہیں، کوئی جج کھل کر بات نہیں کرنا چاہتا کہ جیسے اگر انہیں  ٹٹولا تو وہ پھٹ پڑیں گے۔

میں اپنی ذاتی پسند کی بنا پر چیف جسٹس کھوسہ کا ذکر بیچ میں لے آئی جس پر ناصر صاحب کہنے لگے کہ کھوسہ صاحب ایک آئیڈیلسٹ جج ہیں۔ وہ نہایت تیزی سے عدلیہ میں ریفارمز لانا چاہتے تھے مگر ایک تو ان کے پاس عہدے کی مدت کم ہے دوسرے یہ کہ وہ وکلا تنظیموں میں  مقبول نہ ہوسکے۔ وکلا تنظیموں کی اکثریت  کیسز کے التوا کو اپنا  حق اور ہڑتال کو موثر ہتھیار سمجھتے ہیں۔جسٹس کھوسہ غیر ضروری التوا کے خلاف سسٹم بنانے نکلے، ردعمل تو فطری ہے۔ اوپر سے جسٹس قاضی کے خلاف صدارتی ریفرنس دوہری مشکل بن کر آگیا۔ جسٹس کھوسہ آہستہ آہستہ اکیلے ہورہے ہیں۔

’اکیلے ہو نہیں رہے، اکیلے ہوچکے ہیں‘ حسنات ملک سپریم کورٹ کے نامی گرامی رپورٹر ہیں، ہماری بحث میں حسنات بھی شامل ہوگئے۔ حسنات کا ماننا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس پر جو پہلے پہل ایک تاثر گیا تھا کہ یہ اسٹیبلشمنٹ بمقابلہ عدلیہ کا معاملہ ہے، اب یہ بات جج بمقابلہ جج لگنے لگی ہے۔‘ حسنات رازداری سے بتانے لگے کہ ’ایک جج صاحب کہتے ہیں کہ قاضی  ریفرنس کا معاملہ ایسی ڈگر پر آگیا ہے کہ فیصلہ چاہے جو بھی ہو، نقصان عدلیہ کا ہوگا۔‘

مجھے یاد ہے کہ سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کے الوداعی عشائیے میں وکلا، ججز، ان کی فیملیز، صحافی اور عدالتی عملے کا ایک جم  غفیر تھا۔ چیف جسٹس ر ناصر الملک کی رخصتی بھی پرتپاک ہوئی تھی، جسٹس جواد ایس خواجہ تو خیر سے ملنسار اور عوامی مزاج کے مالک ہیں سو ان سے تو پوری بیٹھک ہی ہوجاتی تھی۔ خود جسٹس  آصف سعید کھوسہ صحافیوں سے  بغیر لگی لپٹی کے ملتےاور خوب گفتگو ہوا کرتی۔ مگر اب  کی بار  انہوں نے میڈیا  اور بار کے نمائندوں سے فاصلہ ہی رکھا۔ صحافیوں کو اپنی جانب آتا  دیکھا تو چیف جسٹس کھوسہ صحافیوں کے مخاطب کرنے پرسگریٹ پینے کا کہہ کر ہال سے باہر چلے گئے۔ یہاں تک  کہ پھر دیدار نصیب نہ ہوا اور تقریب ختم ہوگئی۔  

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ سپریم کورٹ کی  ریت رہی ہے کہ بطور میزبان چیف جسٹس  تمام شرکا سے فرداً فرداً ملتے ہیں مگر اب کی بار تو ’ بدلے بدلے  میرے سرکار نظر آتے ہیں۔‘ اتنا ڈسٹرب تو انہیں ان دنوں میں بھی نہیں دیکھا جب پانامہ کیس کے دوران مسلم لیگ ن  کے وزرا عدلیہ مخالف مہم کھل کرچلا رہے تھے۔

اسی مرکزی میز پر عدلیہ کے بابے، یعنی ریٹائرڈ چیف جسٹس  افتخار چوہدری، تصدق حسین جیلانی اور ناصر الملک براجمان تھے۔ صحافیوں  میں چہ مگوئیاں تو تھیں کہ عدلیہ کو بینچ اور بار کے درمیان  کسی بھی ممکنہ محاذ آرائی سے بچانے کے لیے  شاید یہ  بزرگ ججز اپنا کردار ادا کریں، مگر فی الحال خواہشات کی لمبی فہرست میں یہ بھی ایک  خواہش ہے۔

ادھر دوسری ٹیبل پر بیٹھے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ  تقریب کے آخری لمحے تک وکلاء اور صحافیوں میں گھرے رہے۔ وہ مسلسل مسکرارہے تھے۔ حسنات ملک کو دیکھا تو کہنے لگے کہ آج  سوال  میں پوچھوں گا۔ میں  ابھی اپنی پٹیشن  لکھ رہا تھا، میری  بیٹی اور داماد میرے ساتھ تھے کہ  آپ نے خبر دے دی، آ پ کو کس نے بتایا  تھا؟‘ 

اس سے پہلے کہ حسنات کچھ کہتے میں نے  کہا  قاضی صاحب  صحافی سے اس کے ذرائع نہیں پوچھتے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ وکلاء برادری میں پاپولر سیاست کرنے والے وکیلوں سے بھی قریب نظر آئے اور چند مخصوص ساتھی ججز سے بھی  گھلتے ملتے رہے۔ ان کے ارد گرد عموماً وہی وکیل زیادہ نظر آئے جو افتخار چوہدری کے زمانے میں عدلیہ بحالی تحریک میں  آگے آگے تھے۔ تقریب میں اچھا کھانا تھا، رنگ و روشنی تھے، بہت سی کرسیاں خالی تھیں، سچی جھوٹی مسکراہٹیں بھی تھیں مگر تقریب کے میزبان جسٹس کھوسہ کے جلد چلے جانے کو سب نے محسوس کیا۔

جسٹس کھوسہ ایک فلاسفر جج ہیں، وہ مجلسی مزاج نہیں رکھتے۔ وہ  کتابیں لکھنے پڑھنے والے اور عدالتی سسٹم  میں تبدیلی   کے خواہاں ہیں، مگر اکیلے ان کی خواہش تو  کافی نہیں۔ چیف جسٹس وکلا تنظیموں کے نمائندوں سے کم کم ہی ملتے ہیں، چیف جسٹس کے چیمبر میں  عدالت کے اعلیٰ انتظامی عہدیدار بھی  بہت کم جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ سپریم کورٹ کوریج کرنے والے صحافیوں کو بھی چیف جسٹس صاحب نے شرف ملاقات نہ بخشا، وہ جو سارا سارا سال کسی جج کے حلف لینے یا ریٹائر ہونے کا انتظار صرف اس لیے کرتے ہیں کہ اعزازی تقریب میں ججز سے براہ راست  آن ریکارڈ ملاقات بھی ہوجائے گی۔

ججز کو واٹس ایپ میسجز، ججز کی متنازعہ وڈیوز، ایک سابق جج اور چئیرمین نیب کی متنازعہ مبینہ وڈیو، وکلاء کی ہڑتالیں، عدلیہ کے کرپٹ عناصر کی بیخ کنی، عدالتی ریفارمز کا مستقبل ۔۔۔ کیا کچھ نہیں تھا  پوچھنے کو، صحافی  کی پٹاری میں بھلا سوالوں اور باتوں  کی کمی کب ہوتی ہے؟ مگر وہی سو باتوں کی ایک بات کہ  ہر جانب گھٹن سی محسوس ہوئی۔

ملک میں  کرپشن کا صفایا کرنے کے لیے حکومت، فوج اور عدلیہ ایک ہیں۔ پاناما پیپرز کیس کے بعد سے کرپشن کے خلاف اٹھا یہ سونامی اب تک ٹھاٹھیں مار رہا ہے۔ وہ جو تین سال پہلے شریف  خاندان کے وکیل سلمان اسلم بٹ سے سپریم کورٹ کے ججز نے منی ٹریل کا سوال پوچھا تھا، آج وہی سوال راولپنڈی براستہ فیض آباد سے ہوتا ہوا واپس اسلام آباد یعنی سپریم کورٹ کے ایک جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے سامنے آ گیا ہے کہ جائیدادوں کی منی ٹریل دیں۔

سپریم کورٹ کے کالے کوٹ والے اولڈ بوائز کہتے ہیں کہ جسٹس قاضی فائز کا کیس مضبوط ہے، بس یہ کیس فل کورٹ بینچ کے سامنے لگ جائے ، اور اسے تحمل سے لڑا جائے تو  صدارتی ریفرنس  کو پچھاڑا جاسکتا ہے۔ صدارتی ریفرنس کا کیا بنتا ہے یہ تو بعد میں دیکھیں گے فی الحال ہم بینچ اور بار کا محاذ  شدید ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ شاید اسی صورتحال کو بھانپتے ہوئے جسٹس ر شیخ عظمت نے اپنی آخری تقریر میں کہا ’میرے برادر ججز ’عدلیہ کی آزادی‘ اور ’عدلیہ  میں انارکی‘ کا فرق  خوب جانتے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ