افغان پناہ گزین اور پاکستان میں شدت پسندی

پاکستان سے غیر قانونی طور پر مقیم افغان پناہ گزینوں کو نکالنے سے شدت پسندی میں شاید تھوڑی بہت کمی آجائے لیکن اس لعنت کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے افغان طالبان سے ہی دو ٹوک بات کرنا ہو گی۔

پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان پناہ گزینوں کو بے دخل کرنے کے حکومتی فیصلے کے بعد 6 اکتوبر 2023 کو ایک افغان خاندان خیبر پختونخوا کے علاقے جمرود میں افغانستان واپس جانے کے لیے گاڑی پر سوار ہے (عبدالمجید/ اے ایف پی)

پاکستان میں موجود افغان پناہ گزینوں کو واپس بھجوانے کا معاملہ گذشتہ کئی ہفتوں سے شہ سرخیوں میں ہے۔ اس وقت 14 لاکھ افغان باشندے پاکستان میں قانونی طور پر مقیم ہیں، جبکہ محتاط اندازے کے مطابق غیر قانونی افغان تارکین وطن کی تعداد اس سے کئی زیادہ ہے۔

کسی بھی ملک کے لیے دستاویزات کے بغیر رہنے والے تارکین وطن درد سر بن سکتے ہیں، لہٰذا پاکستان کا یہ مؤقف درست ہے کہ تمام غیر قانونی تارکین کو ملک بدر کیا جانا چاہیے، چاہے ان کا تعلق کسی بھی ملک سے ہو۔

لیکن اگر یہ معاملہ صرف افغان غیر قانونی تارکین وطن تک ہی محدود رکھا گیا تو پھر ہم پر تنقید ہو گی۔

دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ، افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی تنقید کے بعد یہ واضح کر چکی ہیں کہ غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف مہم میں کسی ایک قومیت/ملک کو ہدف نہیں بنایا جا رہا۔

بہرحال اگر عملی اقدامات کے بعد ایسا تاثر پھر سے ابھرے تو اسے حکومت کو کنٹرول کرنا پڑے گا۔

اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ افغان طالبان کے افغانستان پر قابض ہونے کے بعد سے پاکستان میں شدت پسند کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ کارروائیاں کالعدم ٹی ٹی پی، داعش  اور بلوچ علیحدگی پسند جو بھی کرے اس کے تانے بانے افغانستان سے جا ملتے ہیں۔

اپنی سالمیت اور شہریوں کے تحفظ کے لیے کسی بھی ملک کا ہر حد تک جانا اس کا حق ہے۔ لیکن اس بات کی سزا قانونی طور پر مقیم غیر ملکی پناہ گزینوں کو دینے سے عالمی سطح پر پاکستان کا تاثر اچھا نہیں جائے گا۔

دنیا جانتی ہے کہ پاکستان گذشتہ 45 سالوں سے لاکھوں افغان پناہ گزینوں کا گھر رہا ہے کسی اور ملک نے اتنا معاشی سیاسی اور سماجی دباؤ اور نقصان برداشت نہیں کیا جتنا پاکستان نے کیا۔ لیکن وہ لوگ جو افغان طالبان کے خوف سے اپنا گھر بار چھوڑ کر آئے ہیں اور یہاں قانونی طور پر مقیم ہیں انہیں کسی بھی وجہ سے تنگ کرنا ہماری اقدار کے خلاف ہو گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لیکن غیر قانونی طور پر مقیم کسی بھی قومیت/ملک کے باشندوں کو ملک بدر کرنا پاکستان کا حق ہے اور اسی میں ملک کی بھلائی بھی۔ شدت پسندی کے واقعات نے ہماری ریاست کو گذشتہ دو دہائیاں کے دوران جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے۔

فوج، پولیس اور عوام سب نے ایسی ایسی قربانیاں دی ہیں کہ کئی واقعات کو یاد کرتے آج بھی دل دہل جاتا ہے۔ یہاں ہونے والی دہشت گردی کی جڑ یں افغانستان میں ہیں اور اس میں ہماری ریاست کی سابقہ پالیسیاں بھی برابر کی ذمہ دار ہیں لیکن اس کا واحد حل افغان طالبان کو انگیج کرنا ہے۔

طالبان ایک ہیں چاہے وہ یہاں والے ہیں یا وہاں والے، ان کو دو مختلف نظریات والے لوگ سمجھنا ہماری ریاستی غلطی تھی۔

افغان طالبان کا افغانستان پر قبضے پر خوشیاں منانا اور یہ سمجھنا کہ اب وہ ٹی ٹی پی کو ہمارے لیے قابو کر لیں گے، یہ ہماری غلطی تھی۔ لیکن اس کا ازالہ اب کرنا پڑے گا۔

غیر قانونی پناہ گزینوں کو نکالنے سے شدت پسندی میں شاید تھوڑی بہت کمی تو آجائے لیکن اگر اس کو جڑ سے اکھاڑنا ہے تو افغان طالبان سے ہی دو ٹوک بات کرنا پڑے گی۔

یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ