عمران خان آر ایس ایس کو ہدف کیوں بناتے ہیں؟

آج نیویارک ٹائمز میں لکھے گئے اپنے کالم میں ایک مرتبہ پھر وزیر اعظم عمران خان نے آر ایس ایس کا ناطہ ہٹلر اور جرمنی کی نسل پرستی سے جوڑا ہے۔

آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھگوت پرچم بلند کرنے کی رسم میں شریک (اے ایف پی)

وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی جانب سے حالیہ دنوں میں کشمیر کے معاملے پر نازیوں اور ہٹلر کو یاد کرنا بظاہر ان کی کرکٹ کی طرح مخالفین کے خلاف ’ایگریسو یا جارحانہ‘ حکمت عملی ہے یا اسے کچھ اور بھی کہا جا سکتا ہے؟

آج نیویارک ٹائمز میں لکھے گئے اپنے کالم میں ایک مرتبہ پھر وزیر اعظم عمران خان نے آر ایس ایس کا ناطہ ہٹلر اور جرمنی کی نسل پرستی سے جوڑا ہے، آئیے دیکھتے ہیں کہ اس کی وجہ کیا ہے۔

کھیل اور سیاست دونوں میں عمران خان کی ایک حکمت عملی پہلے دن سے یکساں دکھائی دیتی ہے کہ دشمن پر اتنے وار کرو اور ایسے وار کرو کہ اسے ایک منٹ کا بھی آرام نصیب نہ ہو۔ وہ جم نہ سکے اور بوکھلائے ہوئے کوئی ایسا کام کر ڈالے کہ آوٹ ہو جائے۔ اب یہی سٹریٹجی خارجہ امور میں بھی جگہ لیتی دکھائی دیتی ہے۔

اندرون ملک پہلے بھی انہوں نے ہر عوامی تقریر میں اور سوشل میڈیا پر اپوزیشن رہنماؤں کا وہ حشر کیا ہے کہ لوگ کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں۔ عمران خان پر تنقید ہوتی ہے کہ وہ موقع دیکھتے ہیں نہ محل، بس اپوزیشن کی کلاس لینا شروع کر دیتے ہیں۔ چاہے وہ یہ تقریر ملک کے اندر کر رہے ہوں یا باہر کر رہے ہوں۔ امریکہ میں گذشتہ دنوں پاکستانیوں کے ایک اجتماع سے خطاب کے دوران بھی انہوں نے یہی کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اپوزیشن کے رہنما جو تین تین مرتبہ وزیر اعظم اور صدر رہ چکے ہیں، عمران خان نے انہیں چور، ڈاکو، علی بابا چالیس چور اور کرپٹ کے علاوہ نہ جانے کون کون سے القابات سے نواز دیا۔ ان کے وزیر اور مشیر بھی ان کی اسی پالیسی کو اپناتے ہوئے یہی زبان روزانہ کی بنیاد پر استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔ 

عید سے ایک روز قبل اپنے سرکاری ٹوئٹر اکاؤنٹ سے تین ٹویٹس میں انہوں نے کافی سخت زبان استعمال کرتے ہوئے ہمسایہ ملک کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی پر تنقید کی تھی۔ آج تقریباً انہی الفاظ میں انہوں نے آر ایس ایس کو بھارتیہ جنتا پارٹی کی نظریاتی اساس قرار دیتے ہوئے اسے جرمن آمر ہٹلر کی فلاسفی سے ملایا۔ بیسویں صدی کے آغاز پر ہٹلر کے اقتدار میں آنے کے بعد سے جغرافیائی توسیع کا یہ نظریہ نازی جرمنی کی مشرقی اور مرکزی یورپ میں پھیلاؤ کی بنیاد بنا تھا۔

عمران خان متعدد بار یہ وارننگ دے چکے ہیں کہ بی جے پی کی کوششیں محض بھارت کے زیر انتظام کشمیر تک محدود نہیں رہیں گی بلکہ اس کا دوسرا نشانہ بھارتی مسلمان اور پھر پاکستان ہو گا۔ اس کی حالیہ مثال آسام کے مسلمانوں کو بھارتی شہریت ثابت کرنے کی آر میں دربدر کرنا ہے۔  

ماضی میں عمران خان متعدد بار یہ جتا چکے ہیں کہ بھارت کے کٹر ہندو قیام پاکستان سے کبھی بھی خوش نہیں تھے اور اس کے خاتمے کے درپے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ 1971 میں بنگلہ دیش کے قیام میں بھارت کے کردار کو ایک بڑی ٹھوس مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ لیکن 1999 میں وہی عمران خان بی جے پی کے ہی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے دورہ لاہور اور خصوصا مینار پاکستان آمد کو مکمل طور پر تسلیم کرنے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوئے۔ بہت سے بھارت مخالف پاکستانی مبصر اسے واجپائی سے نہ کہ بی جے پی سے جوڑتے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے کشمیر پر پانچ اگست کے فیصلے نے ایک مرتبہ پھر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے خدشات کو تازہ کر دیا ہے۔ عمران خان نے ماضی میں انہی جذبات کی عکاسی کی تھی۔

جہاں تک بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کی بات ہے تو پاکستان میں سرکاری میڈیا اور کسی حد تک نجی میڈیا بھی سرکاری دباؤ کے تحت بھارت میں بسنے والے 20 کروڑ سے زائد مسلمانوں کو ’مظلوم اور پسی ہوئی اکثریت‘ کے طور پر دکھاتا ہے۔ گائے کاٹنے کا معاملہ کہیں بھی پیش آئے پاکستان میڈیا میں بڑھ چڑھ کر پیش کیا جاتا ہے۔ بعض تجزیہ کار انہی مسلمانوں کو پاکستان کی فرسٹ لائن آف ڈیفنس بنانے کی بھی تجویز دیتے ہیں۔

 عاقل ندیم پاکستان کے سابق سفارت کار ہیں۔ اپنے ایک حالیہ شائع شدہ مضمون میں وہ کشمیر کی بدلتی صورتحال میں پاکستان کی آپشنز کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ایک راستہ بھارت میں مسلمانوں کو متحرک کرنا بھی ہوسکتا ہے کہ وہ اس بھارتی قدم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں میڈیا کا استعمال کیا جا سکتا ہے ’مگر اس قدم سےاندرون بھارت موجودہ ماحول میں مسلمان اقلیت پر ظلم و ستم اور بڑھ جائے گا اور بھارت میں مسلمانوں کی وفاداریاں مزید مشکوک ہو جائیں گی۔ شاید ان ہی وجوہات کی بنا پر ہم بھارتی مسلمانوں کو کسی بھی احتجاجی تحریک کا حصہ بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔‘

موجودہ صورت حال میں پاکستانی اسٹبلشمنٹ یقینا تمام راستوں پر غور کر رہی ہے۔ کچھ کا وہ سرعام ذکر کر رہی ہے اور کچھ عام کرنے کے لائق نہیں ہوں گے۔ لیکن ماسوائے اٹل بہاری واجپائی کے مختصر دور کے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ بی جے پی سے دوستانہ تعلق کبھی نہیں رکھ پائی ہے۔ اسے ہمیشہ کانگرس زیادہ متوازن دکھائی دی ہے۔

بھارتی الیکشن سے قبل عمران خان کی جانب سے اس بیان کو بی جے پی کے حق میں اشارے کے طور پر دیکھا گیا کہ وہ اگر کامیاب رہی تو کشمیر کا مسئلہ حل کر پائے گی۔ ان کی دونوں پیش گوئیاں بی جے پی نے کسی حد تک ان کے نہ چاہتے ہوئے بھی سچ ثابت کر دی ہیں۔

بھارت میں ماضی میں کوئی بھی حکومت کشمیر کی حیثیت کو تبدیل کرنے کے بارے میں محض سوچ ہی سکتی تھی لیکن مودی کی بی جے پی نے اسے حقیقت کا روپ دینے کی کوشش کی ہے لہذا پاکستان کا پورے زور و شور سے اس عمل کی مخالفت کرنا فطری ردعمل ہے۔

بی جے پی کو ’اصل مسلمان دشمن‘ ثابت کرنے کا یہ نادر موقع اس وقت پاکستانی حکام کے پاس موجود ہے اور یہی موقع اس دو قومی نظریے کی توثیق کا بھی ہے کہ ہندو اور مسلمان دو علحیدہ قومیں ہیں (جسے بنیاد بنا کر پاکستان بنایا گیا تھا)۔

عمران خان کے جارحانہ رویے کے مقابلے میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی بھی خارجی اور سکیورٹی پالیسی جارحانہ رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ دونوں جارحانہ کھلاڑی اس خطے کو امن و ترقی کا گہوار بناتے ہیں یا جنگ کی دوزخ؟

آر ایس ایس نشانہ پر کیوں؟

ماضی میں پاکستان میں بھی دبے دبے الفاظ میں ہندو قوم پرست رضاکار تحریک راشٹریا سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کا ذکر تو بھارت کے ساتھ آتا رہا ہے۔ لیکن اس مرتبہ وزیر اعظم عمران خان نے خصوصی طور پر ذکر کیا۔ اس کی وجہ اسے پاکستان میں بغیر کسی شک و شبہے کے آر ایس ایس کو حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کی نظریاتی اساس یا بنیاد ماننا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ بی جے پی کے تمام پالیسیاں آر ایس ایس کی کوکھ سے جنم لیتی ہیں۔

سینیر صحافی زاہد حسین نے ایک اخباری مضمون میں لکھا ہے کہ ’آر ایس ایس کے نظریات سے متاثر وزیر اعظم نریندر مودی انڈیا کو ایک ہندو راشٹریا میں تبدیل کرکے مذہبی اقلیتوں کو دیوار سے لگانا چاہتے ہیں۔‘ وہ مزید لکھتے ہیں کہ یہ نظریات غیر ہندوؤں کو ہندوتوا کے لیے خطرہ مانتے ہیں۔

پاکستان کے ایک اور معروف اینکر اور صحافی نصرت جاوید نے تو اس سال مئی میں آر ایس ایس کو بی جے پی کی ’ماں‘ قرار دیتے ہوئے لکھ دیا تھا کہ یہ آر ایس ایس ہی تھی جس کے دباؤ میں آ کر عمران خان کو تقریب حلف برداری میں مدعو کرنے سے روک دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا ’آر ایس ایس کئی تھنک ٹینک بھی چلاتی ہے۔ ان میں سے چند نامی گرامی صنعت کاروں اور کاروباری افراد کے فراہم کردہ سرمائے سے چلائے جاتے ہیں۔ان کے لیے کام کرنے والے ’دانشوروں‘ نے یکسو ہو کر دہائی مچا دی کہ پاکستانی وزیر اعظم کو 30 مئی کو منعقد ہونے والی تقریب میں بلانا ان لوگوں سے’زیادتی‘ ہوگی جنہوں نے مودی کو اپنے وطن کا ’چوکیدار‘ گردانتے ہوئے اسے بھاری اکثریت سے بھارتی وزیر اعظم کے منصب پر لوٹایا۔‘

سینیئر صحافیوں اور اینکرز کے علاوہ، جو پاکستان میں باخبر ترین حلقے تصور کیے جاتے ہیں، خود بھارتی تاریخ دانوں نے بھی آر ایس ایس کو منفی رنگ میں پیش کیا ہے۔ تو شاید اگر پاکستان میں بعض حلقے مودی کے ساتھ تقریب حلف برادری میں شرکت نہ کر سکنے کی وجہ سے ایک نئی شروعات کے موقعے کے گنوانے کا ذمہ دار بھی آر ایس ایس کو سمجھتی ہے تو اس کے خلاف سرکاری نفرت شاید بےجا نہیں۔ عمران خان کا آر ایس ایس کو ہدف بنانا اس اعتبار سے قطعی تعجب انگیز نہیں کہ وہ بی جے پی کی نظریاتی بنیاد کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان