جنوبی افریقہ سے ہارنے سے آدھا گھنٹہ پہلے میرا بیٹا دوڑتا ہوا میرے پاس آیا، ’ماما! پاکستان جیت سکتا ہے، 30 رنز چاہییں اور 50 گیندیں ہیں، دو وکٹیں ہیں، آپ وہ وظیفہ پڑھیں جو دادا نے آپ کو بخشا تھا۔‘
میں نے اپنے معصوم بچے کو دیکھا جس کی آنکھوں میں امید تھی اور معجزے کی خواہش۔
میرا جواب میرے چہرے پہ لکھا تھا، لیکن وہ ضدی انداز میں بولا، ’آپ پڑھیں تو سہی۔‘ نتیجہ وہی نکلا جو مجھے ایشیا کپ میں نظر آچکا تھا۔
لنگڑے گھوڑے میدان میں اتارنے والوں کی بھی اپنی مجبوریاں ہیں۔ گھوڑوں کی بھی اپنی مجبوریاں ہیں کہ وہ تگڑے ہونے کے باوجود لنگڑانے پہ مجبور ہو جاتے ہیں۔
جیتی ریس ہارتے ہیں اور تھان پہ جاکے جگالی کرتے ہوئے یہی سوچتے ہیں کہ دو اصطبل اور بن جائیں گے نئی زین آجائے گی، نیا ریس کورس بن جائے گا۔ ایسے گھوڑے صرف پاکستان میں پائے جاتے ہیں۔
ورلڈ کپ میں اب تک پاکستان جن ٹیموں سے اور جس انداز میں ہارا ہے، اس سے ٹیم کی سلیکشن ، فٹنس، ٹریننگ اور موٹی ویشن کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔
پاکستان میں کھیل کا شعبہ اس حال تک اسی طرح پہنچا جس طرح سارے شعبوں کو پہنچایا گیا۔
ٹیم کے 11 لڑکوں کو کوسنے پیٹنے سے کچھ نہیں ہو گا۔ چور کی ماں کے کان کترنے چاہییں اور وہاں تک کسی کی رسائی نہیں۔
ہم پاکستانی اپنے ایتھلیٹس سے اتنی محبت کرتے ہیں کہ ایک ورلڈ کپ جیتنے کے اعزاز میں بشمول اور بہت سی مراعات کے ہم نے تو اپنا ملک ہی دے دیا تھا کہ لیجیے کھیلیے، توڑیے۔ دنیا میں ایسی مثال ڈھونڈے سے بھی نہیں ملے گی۔
ہماری نسل نے پاکستان کو ہاکی میں جیتتے، سکواش کی دنیا پہ حکمرانی کرتے ، کرکٹ میں کامیاب ہوتے دیکھا۔
انسانی جبلت ہے کہ اسے اپنے قبیلے اپنے جتھے کی جیت پہ خوشی ہوتی ہے۔ ایک گھٹن زدہ معاشرے میں رہتے ہوئے بھی ہمارے پاس قومی وقار کو کہیں نہ کہیں سر بلند دیکھنے کی عیاشی موجود تھی۔
ہاکی کی اولمپیئنز سے آج بھی ملتے ہوئے فخر سے سر بلند ہو جاتا ہے۔ مگر آج کی نسل کو یہ بھی علم نہیں کہ ہاکی کیسے کھیلی جاتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سکواش کے کھیل میں پاکستان کی حیرت انگیز اور الف لیلوی کامیابی کی مثال تاریخ میں کم ہی ملے گی مگر جوں ہی ذاتی محنت کے بل پہ پاکستان کا نام دنیا کے کونے کونے میں پہنچانے والی نسل منظر سے غائب ہوئی، آج نہ کوئی چیمپیئن ہے، نہ اس کھیل کو کوئی اس ملک میں جانتا ہے۔
پی آئی اے ، ریڈیو پاکستان، پی ٹی وی اور ریلویز کی بربادی ہو یا فلم کے شعبے کا تنزل، سیاست کی تباہی ہو یا معیشت کا فنا ہونا، ادب میں گمنامی یا سائنس کے میدان میں بدحالی ، ہر ناکامی کے ڈانڈے ایک ہی جگہ ملتے ہیں اور ہر واردات کا کھرا ایک ہی گلی میں نکلتا ہے۔
اس گلی میں جانے والوں کے بارے میں پہلے ہی کہا جا چکا ہے، ’جس کو ہو دین و دل عزیز، اس کی گلی میں جائے کیوں؟
مسئلہ یہ ہے کہ گلی سانجھی ہے اور ہر راستے کے درمیان پڑتی ہے اسے بائی پاس کرنا ممکن نہیں۔ اس دن کی ہار کے بعد بہت دیر سوچا کہ ٹیم کی کارکردگی میں کمی تھی، مداحوں کی توقعات اور محبت کم تھی یا مجھے بخشے گئے وظیفے میں ہی کوئی کمی تھی؟
تب یہ بات سمجھ آئی کہ دعا کے الفاظ بدلنے چاہییں، معجزے ہو بھی جاتے ہیں لیکن معجزوں کے لیے 313 سچے دل چاہییں۔ مال غنیمت کی چاہ کرنے والوں کے لیے معجزے کسی بھی دور میں نہیں ہوئے ۔
پس نوشت: راقم کے تھوڑے لکھے کو بہت جانا جائے اور کم سے کم کھیل کے شعبے میں جاری اس تنزل کو روکا جائے ورنہ۔ ۔۔۔ راقم اسی طرح کا ایک اور میسنا کالم لکھنے پہ مجبور ہو جائے گا۔ شکریہ!
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی اور انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔