امریکہ کے ادارہ مردم شماری نے جمعرات کو کہا ہے کہ دنیا کی آبادی آٹھ ارب سے تجاوز کر چکی ہے۔ لوگوں کی عمر میں اضافہ ہوا اور بچوں کی پیدائش میں کمی آئی ہے۔ دنیا میں آبادی میں اضافے کے رجحان کی رفتار طویل عرصے سے مسلسل کم ہے۔
امریکی مردم شماری بیورو کا اندازہ ہے کہ عالمی آبادی 26 ستمبر 2023 کو مخصوص حد سے تجاوز کر چکی تھی اگرچہ بیورو کا کہنا تھا کہ اس ضمن میں درست تاریخ کو زیادہ سنجیدگی کے ساتھ نہ لیا جائے۔
مردم شماری بیورو نے ایک بیان میں نشاندہی کی کہ اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ آبادی کی تعداد 10 ماہ قبل ہی مخصوص حد سے آگے نکل چکی تھی۔ 22 نومبر 2022 کو ’آٹھ ارب کا دن‘ قرار دیا گیا تھا۔
اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ مختلف ممالک لوگوں کو مختلف طریقے سے گنتے ہیں یا بالکل نہیں گنتے۔ بہت سے لوگوں کے پاس پیدائش اور اموات کو ریکارڈ کرنے کا نظام نہیں ہے۔ مردم شماری بیورو کے مطابق سب سے زیادہ آبادی والے کچھ ممالک جیسے کہ انڈیا اور نائجیریا میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے مردم شماری نہیں ہوئی۔
اگرچہ دنیا کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور رواں صدی کے آغاز کے بعد سے آبادی کی تعداد چھ ارب سے بڑھ کر آٹھ ارب ہو چکی ہے لیکن 1960 اور 2000 کے درمیان دگنی ہونے کے بعد اب یہ شرح سست پڑ گئی ہے۔
طویل عمر والے افراد کی تعداد بڑھ گئی ہے اور یہ آبادی میں اضافے کی بڑی وجہ ہے۔ اس وقت دنیا میں اوسط عمر 32 سال ہے جس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ توقع ہے کہ 2060 تک اوسط عمر 39 سال تک پہنچ جائے گی۔
کینیڈا جیسے ممالک میں بڑھاپے تک پہنچنے والے افراد کی تعداد زیادہ اور ان میں اموات کی شرح کم ہے۔ جب کہ نائجیریا جیسے ممالک میں پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی اموات میں ڈرامائی کمی دیکھی گئی ہے۔
دریں اثنا شرح پیدائش یا بچے پیدا کرنے کی عمر کی خواتین کے ہاں کم بچے پیدا ہو رہے ہیں۔ یہ شرح پیدائش اس سطح سے کم ہے جو موجودہ آبادی کی جگہ لینے کے لیے ضروری ہے۔ ایسا دنیا بھر میں ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 50 سال سے زیادہ عرصے سے ممجوعی آبادی میں اُتنا اضافہ نہیں ہو رہا جتنا ہو رہا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ماہرین آبادی کا کہنا ہے کہ دنیا کی آبادی میں استحکام کی خاطر باپ اور ماں دونوں کی جگہ لینے کے لیے ایک جوڑے کے ہاں دو اعشاریہ ایک بچے پیدا ہونا ضروری ہے۔ لیکن تقریباً تین چوتھائی لوگ اس وقت ان ملکوں میں رہ رہے ہیں جہاں شرح پیدائش اس سطح کے قریب یا اس سے کم ہے۔ وہ ملک جہاں شرح پیدائش موجودہ آبادی کی جگہ لینے کے لیے ضروری سطح کے قریب ہے ان میں تیونس اور ارجنٹائن شامل ہیں۔
تقریباً 15 فیصد لوگ ایسے مقامات پر رہتے ہیں جہاں شرح پیدائش دنیا کی موجودہ آبادی کی جگہ لینے کے لیے درکار سطح سے نیچے ہے۔ کم شرح پیدائش والے ممالک میں برازیل، میکسیکو، امریکہ اور سویڈن شامل ہیں جب کہ بہت کم شرح پیدائش والے ممالک میں چین، جنوبی کوریا اور سپین شامل ہیں۔
اسرائیل، ایتھوپیا اور پاپوا نیو گنی ان ممالک میں شامل ہیں جہاں شرح پیدائش موجودہ آبادی کی جگہ لینے کے لیے ضروری سطح یعنی پانچ سے زیادہ ہے۔ ایسے ممالک میں دنیا کی آبادی کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ رہتا ہے۔
دنیا کی صرف چار فیصد آبادی ایسے ممالک میں رہتی ہے جہاں شرح پیدائش پانچ سے زیادہ ہے۔ یہ سب لوگ افریقہ میں رہتے ہیں۔
ادارہ مردم شماری کے مطابق 2060 تک عالمی سطح پر شرح پیدائش میں کمی کا امکان ہے اور اس وقت تک کسی بھی ملک میں یہ شرح چار سے زیادہ نہیں ہوگی۔