ایل او سی سے لاپتہ دو نوجوان بھارتی فوج کی حراست میں

نعظیم کھوکھر اور خلیل کیانی پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں 21 اگست کو لائن آف کنٹرول کے قریبی علاقے سے لاپتہ ہوئے۔ بھارتی میڈیا میں ان کا تعلق لشکر طیبہ سے جوڑا جا رہا ہے۔

بھارتی میڈیا پر نشر ہونے والی خبروں سے تصدیق ہوئی ہے کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے گذشتہ ماہ لاپتہ ہونے والے دو نوجوان ہندوستانی فوج کی تحویل میں ہیں اور اب ان کا تعلق کالعدم عسکری تنظیم لشکر طیبہ سے جوڑا جا رہا ہے۔

حویلی کہوٹہ شہر میں دونوں نوجوانوں کے اہل خانہ نے منگل کو مقامی میڈیا سے بات چیت میں ان نوجوانوں کے کسی عسکری تنظیم یا سرگرمی سے تعلق کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ایل او سی کے قریبی علاقے میں رہنے والے معمولی مزدور ہیں اور 21 اگست کو مویشیوں کے لیے گھاس کاٹنے گئے تھے مگر واپس نہیں لوٹے۔

اس سے قبل اسی خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان ابرار کیانی نے گذشتہ ماہ انڈیپنڈنٹ اردو کو ٹیلی فون پر بتایا تھا کہ ان کے دو کزن جن کی عمریں22 سے 24 سال کے لگ بھگ ہیں گذشتہ تین دن سے لاپتہ ہیں اور انہیں خدشہ ہے کہ وہ غلطی سے ایل او سی عبور کر گئے ہیں اور انہیں بھارتی فوج نے گولی مار دی ہے یا حراست میں لے لیا ہے۔

دونوں نوجوانوں کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے حویلی ضلع سے ہے اور وہ گذشتہ ماہ ایل او سی پر واقع علاقے بٹالن سے لاپتہ ہو گئے تھے۔ پولیس ذرائع کے مطابق ان کی گمشدگی کی رپورٹ خورشید آباد پولیس چوکی میں درج ہے اور ان کی تلاش میں پاکستانی فوج نے بھی مقامی لوگوں اور پولیس کی مدد کی تھی۔ مگر ان کا کوئی سراغ نہ ملا۔ 

نعظیم کھوکھر اور خلیل کیانی نامی ان نوجوانوں کے بھارتی فوج کی حراست میں ہونے کی تصدیق سوموار کی رات سے بھارتی میڈیا میں نشر ہونے والی خبروں سے ہوئی۔بھارتی  ٹی وی چینل ’زی نیوز ‘ پر دیکھائی گئی ان کی تصاویر کو اہل خانہ نےپہچان لیا اور انہوں نے بھارتی دعوے کی سختی سے تردید کی ہے دونوں نوجوانوں کا کسی عسکری تنظیم یا اس قسم کی کسی سرگرمی سے کوئی تعلق ہے۔

مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے نعظیم کھوکھر کے والد محمد عارف کا کہنا تھا کہ ان کا بیٹا ٹیکسلا شہر میں زیر تعلیم تھا اور وہیں پر ساتھ محنت مزدوری کرتا تھا۔

انہوں نے کہا: ’وہ ابھی کچھ دن پہلے ہی گھر واپس آیا۔ اور اس دن اپنے کزن کے ساتھ گھاس لانے جنگل گیا تھا۔ ہم غریب لوگ ہیں اور مشکل سے زندگی گزارتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا: ’ہمارے بچے بے گناہ ہیں۔ ہمارا کسی جماعت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ حکومت پاکستان، اور پاکستانی فوج کے سربراہ سے اپیل ہے کہ ہمارے بچوں کو واپس لایا جائے۔‘

بھارتی فوج کی حراست میں موجود دوسرے نوجوان خلیل کیانی شادی شدہ  ہیں۔ ان کے بھائی رستم کیانی کا کہنا  تھا کہ وہ اور خلیل دونوں راولاکوٹ میں مزدوری کرتے ہیں اور گھاس کٹائی کے موسم میں کچھ دن پہلے واپس گاؤں آئے۔

انہوں نے بتایا: ’ ہمارے والد بوڑھے ہیں اور کوئی کام کر سکتے ہیں نہ بات کر سکتے ہیں۔ گھاس کٹائی کے موسم میں والد صاحب نے خلیل کو راولاکوٹ سے گھر بلایا تھا۔ جب سے وہ لاپتہ ہوئےہیں ہمارے گھر میں ماتم کا ماحول ہے۔ کسی نے کھانا کھایا اور نہ کوئی سویا ہے۔ خلیل کی اہلیہ بے حد پریشان  ہیں۔‘

نوجوان بھارتی فوج کی حراست میں کیسے  پہنچے؟

مقامی صحافی ثروت کیانی کے مطابق بٹالن نامی علاقہ جہاں سے یہ نوجوان لاپتہ ہوئے ایل او سی کے قریب ہے۔ انہوں نے بتایا: ’قریبی گاؤں سے لوگ گرمیوں کے موسم میں مال مویشی لے کر اس علاقے میں جاتے ہیں اور گھاس کاٹنے کے لیے بعض دفعہ ایل او سی کے انتہائی قریب چلے جاتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جس دن یہ نوجوان لاپتہ ہوئے اس دن موسم خراب تھا اور پہاڑیوں پر دھند تھی۔ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ نوجوان دھند کی وجہ سے راستہ بھول گئے ہوں اور غلطی سے  ایل او سی کے قریب چلے گئے ہوں یا اسے عبور کرکے دوسری طرف چلے گئے ہوں۔ ان نوجوانوں کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ ایسا بھی ممکن ہے کہ دھند کے باعث بھارتی فوج نے انہیں ایل او سی کے اندر آ کر پکڑ لیا ہو اور اب ان کا تعلق عسکریت سے جوڑنے کی کوشش کر رہے ہوں۔

ماضی میں ایسے واقعات

مظفرآباد میں موجود ایک اعلیٰ سرکاری عہدیدار نے بتایا کہ ایل او سی کےقریبی علاقوں سے مقامی لوگوں اور خاص طور پر بچوں کے غلطی سے آر پار چلے جانے کے کئی واقعات پہلے بھی ہوتے رہے ہیں۔ 

اگرچہ پاکستان کےزیر انتظام کشمیر میں کسی سرکاری ادارے کے پاس ایسے لوگوں کے اعداد و شمار موجود نہیں تاہم عہدیدار نے تصدیق کی ہے کہ ماضی میں وادی نیلم میں تاوبٹ، سیماری کے علاوہ وادی جہلم میں چکوٹھی اور پونچھ سیکٹر میں حویلی، عباس پور کے علاوہ نکیال میں بھی اس طرح کے واقعات ہوتے رہے ہیں۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ  ایسا دوسری بار ہوا ہے کہ بھارتی فوج نے ایل او سی کے قریب سے مقامی شہریوں کو پکڑ کر ان کا تعلق عسکریت سے جوڑنے کی کوشش کی ہو۔

اس سے قبل 2013 میں مچھل سیکٹر سے بھارتی فوج نے ایل او سی کے قریب سے چار شہریوں کو حراست میں لیا اور بعد ازاں انہیں گولی مار کر ان کی لاشیں جموں وکشمیر پولیس کے حوالے کیں۔

 ایسے واقعات میں واپسی کا طریقہ کار کیا ہے؟

اس سوال کے جواب میں عہدیدار نے بتایا کہ جب بھی اس طرح کا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو پاکستان کی وزارت خارجہ یہ معاملہ بھارتی حکام کے ساتھ اٹھاتی ہے اور عسکری حکام کی مدد سے ان افراد کی آر پار واپسی ممکن ہوتی ہے۔

تاہم عہدیدار کا کہنا کہ اگر بھارت کسی شہری کا تعلق عسکریت سے جوڑ دے تو واپسی مشکل ہی نہیں  بلکہ ناممکن ہو جاتی ہے۔  اس واقعہ میں بھی بھارتی فوج ان نوجوانوں کا تعلق عسکریت سے جوڑنے کی کوشش کی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی واپسی کا عمل شائد اتنا آسان نہ ہو۔ تاہم یہ معاملہ سفارتی اور عسکری فورمز پر ہی طے ہو سکتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان