’اب پانی کی دکانیں اور واٹر اے ٹی ایم بنائیں گے‘

وزیر سائنس اور ٹیکنالوجی نے بتایا وہ پانی کی دکانوں کے ذریعے عام آدمی کو تقریباً ایک روپے فی لیٹر صاف پینے کا پانی فراہم کرنا چاہتے ہیں۔

وفاقی وزیر برائے سائنس اور ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے وزارت سنبھالنے کے بعد پاکستان میں دو عیدوں کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے قمری کلینڈر متعارف کرایا۔

حال ہی میں انہوں نے موٹر سائیکل رکشوں کو پیٹرول کی بجائے بیٹری سے چلانے کا خیال پیش کیا اور اب وہ کہہ رہے ہیں کہ ملک میں پانی کی دکانیں اور واٹر اے ٹی ایم بنائے جائیں گے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں فواد چوہدری نے بتایا 22 کروڑ کی آبادی کا پانچ فیصد حصہ بازار سے منرل واٹر خریدنے کی سکت رکھتا ہے، لہذا وہ پانی کی دکانوں کے ذریعے عام آدمی کو تقریباً ایک روپے فی لیٹر صاف پینے کا پانی فراہم کرنا چاہتے ہیں۔

فواد چوہدری نے کہا کہ پینے کا صاف پانی مہیا کرنا حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے اور وزارتِ سائنس اور ٹیکنالوجی کا قلمدان سنبھالنے کے بعد وہ اس خیال پر بہتر طریقے سے عمل درآمد کروا سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا صاف پانی مہیا ہو گا تو لوگوں میں بیماریوں کی شرح بھی کم ہو گی۔

’یہ غلط فہمی بھی دور کرنے کی ضرورت ہے کہ حکومت خود پانی نہیں بنا رہی اور نہ ہی حکومت ایسا کوئی کاروبار کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔‘

فواد چوہدری نے بتایا کہ انہوں نے ملک بھر میں ہر تحصیل کی واٹر سیمپلنگ کی ہے اور اسی  سیمپلنگ کے مطابق نجی کمپنیاں پانی صاف کرنے والے پلانٹس بنائیں گی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ حکومت کے حساس پروگرام سے ہر تحصیل کے لوگوں کو قرضہ ملے گا تاکہ وہ علاقے کی سطح پر پانی کا کاروبار کر سکیں۔ 

وفاقی وزیر نے کہا ان پلانٹس کے پانی کی کوالٹی کسی بھی برانڈڈ بوتل والے منرل واٹر سے کم نہیں ہو گی اور اس کی قیمت پچھتر پیسے سے ایک روپیہ فی لیٹر ہو گی۔

انہوں نے کہا یوں سمجھ لیں پانی کی دکانیں ہوں گی یا واٹر اے ٹی ایم ہوں گے جہاں سے لوگ پانی وصول کر سکیں گے۔ 

جب ان سے پوچھا گیا کہ بازار سے منرل واٹر بیچنے  والی کمپنیز کا مستقبل کیا ہو گا؟ تو ان کا کہنا تھا امیر لوگ تو درآمد شدہ پانی پیتے ہیں اور پیتے رہیں گے۔ ’ہمارا اصل ہدف غریب لوگ ہیں۔ مجھے نہیں لگتا پانی صاف کرنے والے پلانٹس لگانے سے نجی کمپنیوں کے بزنس پر کوئی فرق پڑے گا بلکہ حکومت تو چاہتی ہے بیرون ملک کی نامی گرامی کمپنیاں اس مقصد میں حکومت کا ساتھ دیں اور اپنے پلانٹس لگائیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جب فواد چوہدری کی توجہ حکومت کی پلاسٹک ختم کرنے کی مہم  کی طرف دلائی گئی اور پوچھا گیا کہ سستا پانی جب پلاسٹک بوتلوں میں ملے گا تو پلاسٹک کی پیداوار پھر سے بڑھ نہیں جائے گی؟

اس پر وفاقی وزیر نے واضح کیا پانی پلاسٹک کی بوتلوں میں دستیاب نہیں ہو گا۔ ابھی تو ٹیسٹ کیا جا رہا ہے لہذا پلاسٹک کی بوتل استعمال ہو رہی ہے لیکن جب بڑے پیمانے پر پانی کی فلٹریشن ہو گی تو شیشے کی قابل استعمال بوتلوں میں پانی دیا جائے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ لوگ اپنے کنٹینر لے جا کر بھی فی لیٹر پانی لے سکیں گے۔

پاکستان میں منرل واٹر کے رجحان نے کب جنم لیا؟

پاکستان میں پینے کے لیے منرل واٹر کا رجحان سوئس کمپنی نیسلے سے شروع ہوا۔ نیسلے نے 1988 میں پاکستان میں اپنے کاروبار کا آغاز کیا اور 1998 میں نیسلے کا صاف پانی باقاعدہ متعارف کرایا گیا، جس کے بعد بوتل والے پانی کا رجحان شروع ہو گیا۔

اس کے بعد مختلف غیر ملکی کمپنیوں نے بھی اس کاروبار کو اپنایا اور کچھ مقامی کمپنیوں نے بھی زیر زمین پانی پر فلٹریشن پلانٹس لگا کر یہ کاروبار شروع کر دیا۔

تاہم 2018 میں سپریم کورٹ کے ایک فیصلے میں نیسلے سمیت پینے کا پانی بیچنے والی کئی کمپنیوں کو حفظان صحت کے اصولوں پر پورا نہ اترنے پر نوٹس جاری کیے گئے۔

وزارت سائنس اور ٹیکنالوجی کے ماہرین کے مطابق اس کے بعد ہی حکومت نے اپنی سرپرستی میں پینے کا صاف پانی سستی قیمت میں عوام تک پہنچانے کا منصوبہ بنایا جس کو اب عملی جامہ پہنایا جائے گا۔

’پاکستان اب استعمال سے زائد بجلی پیدا کر رہا ہے‘

ایک سوال کے جواب میں فواد چوہدری نے بتایا گذشتہ 40 سال سے پاکستان نے سائنس اور ٹیکنالوجی پر کوئی کام نہیں کیا۔

انہوں نے کہا اگلے دو سال فوکس یہی ہے کہ موٹر سائیکلوں اور چنگچی رکشوں میں بیٹیریز کا استعمال کیا جائے۔

 وفاقی وزیر نے مزید انکشاف کیا کہ پاکستان بجلی کے معاملے میں نہ صرف خودکفیل ہے بلکہ استعمال سے زائد بجلی پیدا ہو رہی ہے۔

انہوں نے کہا بجلی کی پیداوار 30 ہزار میگا واٹ جبکہ طلب 22 ہزار میگا واٹ ہے، زائد بجلی کو بیٹریز کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

جب اُن سے سوال کیا گیا کہ بجلی کی زائد پیداوار کے باوجود کچھ شہروں میں لوڈ شیڈنگ کے مسائل کیوں ہیں تو انہوں نے جواب دیا سارا مسئلہ ڈسٹری بیوشن کا ہے جس کی وجہ سے کچھ شہروں میں بجلی کی رسد میں کمی ہو جاتی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی سائنس