کیا پیپلز پارٹی، تحریک انصاف کے ووٹرز کو متوجہ کر پائے گی؟

سیاسی صورت حال پر نظر رکھنے والے ماہرین کے خیال میں پاکستان پیپلز پارٹی فروری کے انتخابات کے لیے اپنے علاوہ پاکستان تحریک انصاف کے ووٹ بینک پر بھی نظریں لگائے بیٹھی ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور وزارت عظمیٰ کے امیدوار بلاول بھٹو زرداری 14 جنوری 2024 کو صوبہ سندھ کے خیرپور میں 2024 کے عام انتخابات کے لیے ایک مہم کے دوران حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے اپنی پارٹی کا انتخابی نشان تیر پکڑے ہوئے ہیں (اے ایف پی)

’ہم تحریک انصاف کے سپورٹرز کو کہہ رہے ہیں کہ پی ٹی آئی کے امیدواروں کے حق میں رائے استعمال کرنے کی صورت میں ان کا ووٹ ضائع ہو سکتا ہے، کیوں کہ انتخابات میں کامیابی کے بعد آزاد منتخب ہونے والے (پی ٹی آئی کے) اراکین ضروری نہیں کہ اپنی جماعت کے وفادار رہیں۔‘

یہ کہنا تھا پاکستان پیپلز پارٹی کے ملتان شہر کے جنرل سیکریٹری امین ساجد کا، جو آٹھ فروری 2024 کے انتخابات کے لیے چیئرمین بلاول بھٹو کے 10 نکاتی انتخابی منشور کے ہمراہ نوجوانوں کے نام پیغام لے کر الیکشن کمپین میں مصروف ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں امین ساجد کا کہنا تھا کہ وہ ان انتخابات کی مہم میں بغیر کسی تخصیص کے ہر نوجوان اور جوان پر توجہ دے رہے ہیں اور ان میں پی ٹی آئی کے ووٹرز اور حمایتی بھی شامل ہیں۔

چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے ہفتے کی شام پنجاب کے ضلع کوٹ ادو میں انتخابی جلسے سے خطاب میں بغیر کسی جماعت کا نام لیے کہا کہ آٹھ فروری کے الیکشنز صرف دو جماعتوں کے درمیان ہو رہے ہیں اور ا س لیے ووٹرز اپنا ووٹ ضائع کرنے کے بجائے پی پی پی کے حق میں اپنی رائے کا اظہار کریں۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے پیپلز پارٹی کے ایک کارکن نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہیں پی ٹی آئی کے حمایتیوں پر زیادہ توجہ دینے کی ہدایات دی گئی ہیں۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ان کا کہنا تھا: ’پی ٹی آئی سے ہمدردی رکھنے والے نوجوان ووٹرز موجودہ ملکی صورت حال میں الجھن کا شکار ہیں اور ہم انہیں ہماری جماعت کے حق میں ووٹ کے استعمال پر راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘

سیاسی تجزیہ کاروں کے خیال میں پاکستان پیپلز پارٹی کی ’پھرتیاں‘ موجودہ مخصوص ملکی حالات میں معنی خیز دکھائی دیتی ہیں اور شاید یہ جماعت دوسری سیاسی پارٹیوں خصوصاً پاکستان تحریک انصاف کو درپیش مشکل حالات کو انتخابات میں کیش کرنے کی پہلے ہی منصوبہ بندی کر چکی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بلاول بھٹو زرداری خصوصاً پنجاب میں ایک فعال اور تیز و تند انتخابی مہم کے ذریعے تحریک انصاف کے نوجوان حمایتیوں کی توجہ حاصل کر کے ان کے دل اور ووٹ جیتنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

پاکستان کے 12 ویں پارلیمانی انتخابات کے لیے انتخابی منشور کا اعلان اور مہم کا آغاز کر کے پاکستان پیپلز پارٹی دو دوسری بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کی نسبت زیادہ متحرک ہونے کے علاوہ آنے والے انتخابات میں زیادہ پرامید ہونے کے اشارے دے رہی ہے۔

گذشتہ چند ہفتوں کے دوران رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کی باقیات میں سے اہم الیکٹ ایبلز اور جنوبی پنجاب کے کچھ بااثر خاندانوں کی پیپلز پارٹی میں شمولیت بھی اس جماعت کی قیادت کے پراعتماد ہونے کا عندیہ دیتی ہے۔

سینیئر صحافی اور سیاسی تجزیہ کار ضیغم خان کے خیال میں پیپلز پارٹی کی قیادت پاکستان تحریک انصاف کے زیر عتاب ہونے کی وجہ سے انتخابی منظرنامے سے تقریباً باہر ہونے کو ایک ’اوپننگ‘ کے طور لے کر اس موقعے سے پورا پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی جارحانہ انتخابی مہم میں بلاول بھٹو نے تین دوسرے صوبوں کے علاوہ صرف پنجاب میں تقریباً ایک درجن جلسوں سے خطاب کرنا ہے جب کہ ان کے والد اور جماعت کے شریک چیئر پرسن آصف علی زرداری اور چھوٹی بہن آصفہ بھٹو بھی اس کمپین میں حصہ لے رہی ہیں۔

اس سلسلے میں سابق صدر پنجاب میں بھی نظر آئے، جب کہ بلاول بھٹو 28 جنوری کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جلسے سے خطاب کریں گے۔

بعض تجزیہ کاروں کے خیال میں مسلم لیگ ن بھی اس وقت مختلف مسائل کا شکار ہے، جس سے پیپلز پارٹی پوری طرح مستفید ہونے کی کوشش کر رہی ہے۔

سینیئر صحافی اور لاہور کے سٹی میڈیا گروپ کے ڈائریکٹر سلیم بخاری سے اس سلسلے میں دریافت کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’کچھ دنوں سے یکایک تمام اہم ریاستی قوتیں مسلم لیگ ن کو محدود کرنے کی کوششیں کرتی نظر آ رہی ہیں۔‘

اپنے اس خیال کے حق میں دلیل دیتے ہوئے سیاسی تجزیہ کار کا کہنا تھا: ’غور کریں تو گذشتہ چند روز کے دوران ملک کے تمام اہم اینکرز کی ہمدردیاں بھی (مسلم لیگ ن سے کسی دوسری طرف) شفٹ ہو گئی ہیں۔‘

سلیم بخاری کا کہنا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی فروری کے انتخابی دنگل میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کے ’مشکل وقت‘ میں ہونے کو اپنے فائدے میں موڑنے کی کوشش کر سکتی ہے۔

بعض دوسرے سیاسی تجزیہ نگار پیپلز پارٹی کی ’تیزیوں‘ کو ایک الگ زاویے سے بھی دیکھتے ہیں، جس کے مطابق فروری کے انتخابات پی پی پی کے مختلف نوعیت کے حامل ہیں۔

کراچی سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافی اور سیاسی تجزیہ کار نذیر لغاری کی رائے میں 1970 کے بعد سے آٹھ فروری کے انتخابات میں پہلی مرتبہ پیپلز پارٹی آزادانہ طور پر الیکشنز میں حصہ لے گی اور لگتا ہے کہ اس مرتبہ اس کے ساتھ ’گھپلا‘ نہیں کیا جائے گا۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا: ’پیپلز پارٹی کو یقین ہے کہ اس مرتبہ اس کو جو ووٹ ڈالا جائے گا وہ گنا بھی جائے گا اور اس نے لیول پلیئنگ فیلڈ بھی حاصل کر لی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں پیپلز پارٹی کا ووٹر اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کے باعث حق رائے دہی استعمال کرنے سے جی چراتا تھا۔

’اس مرتبہ بلاول نے انتخابی مہم سب سے پہلے شروع کی تاکہ جماعت کے وفادار ووٹرز کی حوصلہ افزائی کر کے اسے آٹھ فروری کو گھر سے باہر نکلنے پر مجبور کیا جائے۔‘

پیپلز پارٹی کو کھل کر کھیلنے کی ’اجازت‘ ملنے کی وجہ سے متعلق سوال پر نذیر لغاری کا خیال تھا کہ ’اس کی وجہ شاید اسٹیبلیشمنٹ کا تحریک انصاف کے ساتھ مصروف ہونا ہے۔‘

پسماندہ اور الگ تھلگ کمیونٹیز کو مرکزی دھارے میں لانے کے لیے کوشاں پتن ترقیاتی تنظیم کے قومی رابطہ کار سرور باری کے خیال میں پاکستان تحریک انصاف کی آئندہ ماہ کے انتخابات میں غیر فعال ہونے کی صورت میں اس کا ووٹر پیپلز پارٹی کے حق میں ووٹ کا استعمال کر سکتا ہے۔

’اور ایسا وہ مسلم لیگ ن کو سزا دینے کے لیے کرے گا۔‘

انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو پنجاب میں جو انتخابی مہم چلا رہے ہیں اس میں ان کی اپنی جماعت کے علاوہ مسلم لیگ ن کے حمایتی بھی شرکت کر رہے ہیں، جو ظاہر کرتا ہے کہ پی پی پی اپنے علاوہ پی ایم ایل این کے ووٹرز کو بھی رام کر رہی ہے۔

سرور باری کا مزید کہنا تھا کہ بلاول بھٹو اس وقت زیادہ اینٹی نون بیان بازی کر رہے ہیں، جب کہ پی ٹی آئی کے خلاف کم بات کرتے ہیں۔

’اس کا واضح مطلب ہے کہ بلاول پی ٹی آئی کے ووٹر کو ساتھ ملانے  کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

پاکستان تحریک انصاف حکومت سے باہر ہونے، نو مئی کے واقعات اور نتیجتاً گذشتہ سال اگست میں پارٹی کے سربراہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد سے مسائل اور مشکلات کا شکار ہے، جن میں گزرنے والے ہر دن کے ساتھ اضافہ ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔

ایسی صورت حال میں پی ٹی آئی کے لیے ایک مؤثرانتخابی مہم چلانا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے، تاہم اس کے کچھ رہنما اپنے طور پر ملک کے مختلف حصوں میں کنونشنز اور جلسوں کا اہتمام کر رہے ہیں جب کہ ماضی کی طرح یہ پارٹی سوشل میڈیا پر بھرپور انداز میں فعال نظر آتی ہے۔

پاکستان میں تین مرتبہ وزیر اعظم رہنے والے میاں محمد نواز شریف کی گذشتہ سال اکتوبر میں چار سالہ خود ساختہ جلاوطنی ختم کر کے وطن واپسی کے باوجود مسلم لیگ ن لمبے عرصے تک ظاہری طور پر گومگو کا شکار رہی اور ٹکٹوں سے متعلق فیصلوں میں تاخیر کے علاوہ انتخابی مہم کا آغاز بھی الیکشن شیڈول کے آنے کے کافی دیر بعد 15 جنوری کو کر سکی۔

جب مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف اپنے اپنے مختلف نوعیت کے مسائل میں گھری ہوئی تھیں تو پیپلز پارٹی ملک کی پہلی جماعت بنی، جس نے سب سے پہلے آٹھ فروری کے انتخابات کے لیے نہ صرف پورے ملک میں انتخابی مہم کی شروعات کیں بلکہ انتخابی منشور کے اعلان میں بھی بازی لے گئی۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 16 دسمبر کو آئندہ ماہ ہونے والے عام انتخابات کے شیڈول کا اعلان کیا تھا، جس کے محض 10 دن بعد پیپلز پارٹی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو زرداری نے گڑھی خدا بخش میں اپنی والدہ اور سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی 16 ویں برسی کے موقعے پر جماعت کے 10 نقاطی انتخابی منشور کا اعلان کیا اور مزید ایک ہفتے بعد (پانچ جنوری کو) لاہور میں قومی اسمبلی کے حلقے این اے 127 میں اپنے پہلے انتخابی جلسے سے خطاب کیا جب کہ ان کی جماعت نے اسی روز الیکشن کمپین کا شیڈول بھی جاری کر دیا۔

پیپلز پارٹی کی توقعات

پاکستان پیپلز پارٹی کے الیکشن مانیٹرنگ سیل کے سربراہ سینیٹر تاج حیدر نے ان کی جماعت کی انتخابی مہم کی ایک خصوصیت بیان کرتے ہوئے کہا کہ پی پی پی اس وقت ان ووٹرز پر توجہ دے رہی ہے جنہوں نے ماضی میں ہمیں کبھی ووٹ نہیں ڈالا۔

’جو ہمارے ووٹر ہیں ان کو ہم ٹچ نہیں کر رہے بلکہ ہمارا شکار وہ لوگ ہیں جنہوں نے ماضی میں ہمارے لیے کبھی ووٹ استعمال نہیں کیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کے پاس خصوصاً سندھ میں اپنے ووٹرز تک پہنچنے کا ایک نظام موجود ہے، جس کے لیے وارڈ کی سطح تک تنظیمیں موجود ہیں، جو اپنے اپنے علاقوں میں انتخابات کے حوالے سے تمام تر معاملات کی ذمہ دار ہوتی ہیں۔  

انہوں نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی نے اس وقت انتخابی مہم شروع کی جب دوسری پارٹیوں کے رہنما ابھی گھروں میں بیٹھے ہوئے جوڑ توڑ میں مصروف تھے۔

ـہم نے سب سے پہلے کمزور علاقے چنے اور خیبر پختوانخوا میں کنونشنز کرائے، جہاں امن و امان کے حوالے سے زیادہ خدشات تھے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ کمیٹی کے رکن اور سابق وفاقی وزیر چوہدری منظور احمد کا کہنا تھا: ’سب سے پہلے الیکشنز کی تاریخ اور الیکشن شیڈول کا مطالبہ، اچھی اور ملک گیر انتخابی مہم کا آغاز کر کے اور بروقت انتخابی منشور عوام کے سامنے رکھ کر ہم نے ثابت کر دیا کہ صرف پیپلز پارٹی ہی انتخابات کے لیے سنجیدہ ہے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کی لاڈلی پارٹی نہ ہونے کے باوجود پیپلز پارٹی نے ہمیشہ عوام کی حمایت سے الیکشنز جیتے ہیں اور اس مرتبہ بھی ایسا ہی ہونے جا رہا ہے۔

سابق رکن قومی اسمبلی شازیہ عطا مری، جو آٹھ فروری کے انتخابات میں سندھ کے ضلع سانگھڑ سے این اے 209 سے الیکشن لڑ رہی ہیں، کا دعویٰ تھا کہ پیپلز پارٹی کی فعال انتخابی مہم کو پنجاب میں بہت اچھا ردعمل مل رہا ہے، جس سے وفاقی سطح پر حکومت بنانے کے امکانات مزید روشن ہو جاتے ہیں۔

چوہدری منظور احمد نے کہا کہ سندھ میں بہرصورت پیپلز پارٹی حکومت بنائے گی، جب کہ جنوبی پنجاب سے کم از کم قومی اسمبلی کی 50 فیصد نشستیں جیت کر وفاق کی سطح پر بھی اکثریت حاصل کرے گی۔

’بلوچستان میں بھی قومی اسمبلی کی نشستوں پر ہماری اکثریت ہو گی، جب کہ خیبر پختونخوا سے ہم کم از کم ایک درجن نشستیں جیتنے کی امید رکھتے ہیں۔‘

چوہدری منظوراحمد، جو پاکستان پیپلز پارٹی کے لیبر ونگ کی بھی سربراہی کرتے ہیں، نے کہا کہ ان کی جماعت آٹھ فروری کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی کم از کم 80 نشستوں پر کامیابی حاصل کرے گی اور وفاقی حکومت بنانے کی آسان پوزیشن میں ہو گی۔

شازیہ مری کا مزید کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی نے تمام تر مشکلات اور مسائل کے باوجود ہمیشہ جمہوریت کے لیے جدوجہد کی اور کرتی رہے گی۔

’اگر شفاف انتخابات کے راستے میں بھی مشکلات ہیں تو ہم گھر نہیں بیٹھ سکتے بلکہ اپنی کوششیں جاری رکھیں گے اور اس کا ثمر ہمیں ضرور ملے گا۔‘ 

پیپلز پارٹی کے اکثر رہنما تسلیم کرتے ہیں کہ آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے سے ان کی جماعت کے رابطے لمبے عرصے تک منقطع رہے، جس کے باعث ماضی میں اس پارٹی کا گڑھ ہونے کے باوجود کئی دہائیوں سے پنجاب میں انہیں پذیرائی نہیں مل رہی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لاہور میں قومی اسمبلی کے حلقے این اے 127 میں بلاول بھٹو کی انتخابی مہم کے انچارج ذوالفقار بدر کے مطابق اب ان کی جماعت پنجاب پر توجہ دے رہی ہے اور اس کے نتائج بھی مثبت نکلیں گے۔

تاہم صحافی منیزے جہانگیر کے خیال میں پیپلز پارٹی فروری کے انتخابات کے لیے بھی جانے پہچانے چہرے میدان میں نہیں اتار سکی ہے۔  

پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی کے ووٹ حاصل کر سکتی ہے؟  

اگرچہ پاکستان پیپلز پارٹی پی ٹی آئی کے ووٹرز کو (خصوصاً پنجاب میں) لُبھانے کی پوری کوشش کر رہی ہے، تاہم اکثر سیاسی تجزیہ کاروں کی رائے میں پی پی پی کے لیے یہ کام جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گا۔

حال ہی میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں تحریک انصاف کی حمایت تقریباً 40 فیصد ہے جب کہ مسلم لیگ ن 18 فیصد کے ساتھ دوسرے اور پیپلز پارٹی 12۔16 فیصد کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔ اس سروے کی تفصیلات آئندہ چند روز میں عوام کے سامنے رکھ دی جائیں گی۔

غیر سرکاری تنظیم پتن کے قومی کوآرڈینیٹر سرور باری کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کے لیے اندرون سندھ کی صورت حال کافی بہتر ہے اور پنجاب میں بلاول بھٹو کی فعال کمپین کے باوجود زیادہ اثر انداز ہو نہیں پا رہے ہیں۔   

پاکستان پیپلز پارٹی کا انتخابی منشور

1۔ آئندہ پانچ سال دوران ملک بھر میں تنخواہوں میں دو گنا اضافہ

2۔ ملک بھر میں ضلع کی سطح پر گرین انرجی پارکس کا قیام اور غریب خاندانوں کو بجلی کے 300 یونٹ مفت مہیا کیا جانا۔

3۔ اعلی سطح کی تعلیم مہیا کرنا

4۔ بین الاقوامی سطح کی صحت کی سہولتیں دستیاب کرنا

5۔ بے گھر خاندانوں کے لیے 30 لاکھ پکے گھروں کی تعمیر

6۔ بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام کو توسیع دے کر وسیلہ روزگار، وسیلہ تعلیم اور وسیلہ صحت جیسے حصوں کو فروغ دینا

7۔ بےنظیر کسان کارڈ کا اجرا جس سے کارخانہ داروں کے بجائے کسانوں کو دی جانے والی سبسڈی براہ راست ان کی جیبوں میں منتقل ہو گی۔

8۔ مزدوروں کی مالی امداد کی غرض سے بے نظیر مزدور کارڈ کا اجرا کیا جائے گا۔

9۔ تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوانوں کی مالی امداد کے لیے یوتھ کارڈ کا اجرا کی جائے گا،

10۔ ملک بھر میں ڈویژن کی سطح پر یوتھ سنٹرز قائم کیے جائیں گے، جہاں لائیبریریوں، وائی فائی (انٹرنیٹ)، ثقافتی سرگرمیوں کی جگہ، ووکیشنل تربیت اور کیریئر کونسلنگ جیسی سہولتیں میسر ہوں گی۔

مہنگائی کا مقابلہ ’بھوک مٹاؤ پروگرام‘ کے ذریعے کیا جائے گا۔

ضیغم خان کے خیال میں پیپلز پارٹی کے لیے پی ٹی آئی کا ووٹ قابو کرنا بہت مشکل کام ثابت ہو گا، جس کی وجہ ان (پی ٹی آئی ووٹرز) کے رویوں کو بالکل مختلف ہونا ہے۔

’پرانی جماعتیں خصوصاً مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی 20 ویں صدی میں پھنسی ہوئی ہیں اور نوجوانوں کے ساتھ بالکل بھی ہم آہنگ نہیں ہیں۔

’اس کے برعکس پی ٹی آئی کا ووٹ بینک نوجوانوں پر مشتمل ہے، جو دراصل انہین پرانی جماعتوں کے خلاف بنایا گیا تھا۔‘

سیاسی تجزیہ کار سلیم بخاری کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی پنجاب میں دوباری زندہ ہونے کی کوشش تو کر رہی ہے لیکن وہاں اس کا اپنا جیالا بھی نظرانداز ہوتا رہا ہے، جسے منانے کی ضرورت ہے۔

’لیکن ان کے پاس وقت بہت کم ہے۔ اتنے وقت میں اپنے ورکرز اور ووٹرز کو منا لینا مشکل ہے، پی ٹی آئی کے حامیوں کو کیسے رام کیا جا سکتا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان میں پیپلز پارٹی کو پذیرائی مل سکتی ہے جب کہ خیبر پختونخوا میں مخصوص نشستیں جیت جائیں گے۔

سیاسی تجزیہ کار نذیر لغاری کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب سے قومی اسمبلی کی کم از کم 17 نشستوں پر کامیابی حاصل کر سکے گی، جب کہ بلوچستان میں بھی ان کی کارکردگی بہتر رہے گی۔

پیپلز پارٹی کا انتخابی منشور کتنا پرکشش اور قابل عمل

بلاول بھٹو نے گذشتہ مہینے آٹھ فروری کے انتخابات کے لیے پیپلز پارٹی کے انتخابی منشور کا اعلان کیا، جو بڑی حد تک ان کے جماعت کے بانی چیئرمین اور سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے 70 کی دہائی میں لگائے گئے نعرے ’روٹی کپڑا اور مکان‘ کا اعادہ لگتا ہے۔

پیپلز پارٹی کے 10 نکاتی منشور کی تفصیلات یہاں تصویری شکل میں موجود ہیں۔

پیپلز پارٹی کا منشور واضح طور پر بلاول بھٹو کی اپنے نانا اور بھٹو خاندان کی میراث کے ساتھ فروری کے انتخابات میں حصہ لینے کی کوشش نظر آتا ہے۔

پیپلز پارٹی کے انتخابی منشور میں ایک بات بہت واضح طور پر نظر آتی ہے کہ اس میں معاشرے کے تقریباً تمام معاشی طبقات کی داد رسی کی بات کی گئی ہے، تاہم ’بہت غریب‘ طبقے پر توجہ زیادہ مرکوز نظر آتی ہے۔

ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ، 30 لاکھ گھروں کی تعمیر، تعلیم کارڈ اور یوتھ سنٹرز کے قیام وغیرہ کے وعدے معاشی طور پر درمیانے طبقے کو مخاطب کرتے ہیں، جب کہ ’بھوک مٹاؤ پروگرام‘، بجلی کے ماہانہ 300 یونٹ مفت اور مزدور کارڈ جیسے نقاط ’بہت غریب‘ شہریوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ہیں۔

بلاول بھٹو زرداری نے متعدد مرتبہ اپنے انتخابی منشور کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی سطح پر آئین پاکستان میں 18 ویں ترمیم کے نتیجے میں ختم ہونے والی وزارتوں کو واقعتاً صوبوں کو منتقل کریں گے، جب کہ ان کی حکومت غریب خاندانوں کو شمسی توانائی کے ذریعے بجلی کے 300 یونٹ مفت مہیا کرے گی۔

بے گھر خاندانوں کے لیے 30 لاکھ گھروں کی تعمر سے متعلق سوالات کے جواب میں وہ کہتے رہے ہیں کہ سندھ حکومت صوبے میں سیلاب متاثرین کے لیے پہلے ہی 20 لاکھ سے زیادہ گھروں پر کام کر رہی ہے اور یہ گھر زمین کی ملکیت کے ساتھ خاندان کی خاتون رکن کے نام منتقل کیے جائیں گے، جس سے اس کنبے کو ایک اثاثہ حاصل ہو جائے گا۔ 

تاج حیدر کا پیپلز پارٹی کے انتخابی منشور سے متعلق کہنا تھا کہ روٹی کپڑا اور مکان نعرہ جبکہ ان کی جماعت کا مقصد ملک میں غربت ختم کرنا اور غریب خاندانوں معیار زندگی کو بہتر بنانا ہے۔

’ہم نے ایسا پرورام تشکیل دیا ہے جس سے ایک انقلاب جیسی صورت حال جنم لے گی اور ایک بڑی تعداد میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے شہریوں کی زندگیاں بدل جائیں گی۔‘

انہوں نے کہ اقتدار میں آنے کے بعد پیپلز پارٹی پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ کے ذریعے سرمایہ کاری اور اداروں کی فعالیت میں اضافے کو ممکن بنائے گی۔ 

تاہم ناقدین کے خیال میں ابتر ملکی معیشت اتنے جارحانہ ترقیاتی اقدامات کی تکمیل کی متحمل نہیں ہو سکتی، جنہیں ممکن بنانے کے لیے بہت بڑے سرمائے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست