آٹھ فروری کے انتخابات پر اب بھی شکوک کے بادل کیوں ہیں؟

سیاسی ماحول میں نفرت، اشتعال، مفاد پرستی اور عدالتی بازپرس نے ایسی فضا پیدا کر دی ہے، جس کے نتائج کے بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل ازوقت ہے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اہلکار 17 دسمبر 2023 کو کوئٹہ میں آئندہ عام انتخابات سے قبل ضلع اور صوبے کے ریٹرننگ افسران کو تربیت دے رہے ہیں (اے ایف پی)

الیکشن 2024 کے التوا کے بارے میں گذشتہ ہفتے منظور ہونے والی سینیٹ کی قرارداد نے سب کو چونکا دیا۔

اس بارے میں غور کرنے کے لیے الیکشن کمیشن کا ہنگامی اجلاس بدھ کو ہوا جب کہ سینیٹ سیکرٹریٹ نے وزارت پارلیمانی امور کو بھی فوری کارروائی کرنے کی ہدایت جاری کی ہے۔

آئین کے آرٹیکل 219 کے تحت الیکشن کمیشن کو کسی بھی ادارے کی طرف سے انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے ہدایات نہیں دی جا سکتیں، رائے اور تجاویز کے بارے میں الیکشن کمیشن آئین و قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کا مجاز ہے۔

سینیٹ کی قرارداد کا بھی الیکشن کمیشن آئین کے آرٹیکل 219 اور 218 کے مطابق ہی جائزہ لے گا اور اگر محسوس کیا تو آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ سے رہنمائی حاصل کرنے کا بھی ان کے پاس راستہ موجود ہے کیونکہ آٹھ فروری کے انتخابات کے انعقاد کا اہم فیصلہ چیف جسٹس آف پاکستان، چیف الیکشن کمشنر، اٹارنی جنرل اور صدر مملکت کی باہمی مشاورت سے طے پایا تھا۔

سینیٹ کی قرارداد جو چیئرمین سینیٹ کی سربراہی میں منظور ہوئی، بڑی اہمیت کی حامل ہے اور اسے دفتری کارروائی کے طور پر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

اس قرارداد کے دور رس نتائج کا سامنا کرنا ہو گا کیونکہ مولانا فضل الرحمٰن نے بھی اہم بیان دیا ہے کہ انتخابات کے التوا کی سینیٹ قرارداد ان کے موقف کی تائید ہے، لہذا الیکشن کمیشن سیاسی جماعتوں کے تحفظات پر غور کرے اور گورنر خیبر پختونخوا بھی آٹھ فروری کے انتخابات کے حوالے سے سکیورٹی خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔

اسی پس منظر میں بلوچستان عوامی پارٹی کے سربراہ بھی سینیٹ کی مجوزہ قرارداد کی حمایت کر رہے ہیں۔

دوسری جانب الیکشن کمیشن کے وفاقی سیکرٹری عمر حمید صحت کی خرابی کی بنیاد پر مستعفی ہو چکے ہیں اور انہوں نے پانچ جنوری کو اپنا استعفیٰ چیف الیکشن کمشنر کو بھجوا دیا ہے۔

کسی وزارت یا ادارے میں سیکرٹری ہی ساری پالیسی کو آگے لے جانے کا محور ہوتا ہے اور سیکرٹری الیکشن کمیشن نے ہی کمیشن کے تمام فیصلوں پر عمل درآمد کروانا ہوتا ہے اور بطور سیکرٹری انہیں ملک بھر کی اہم ترین بیوروکریسی، حساس ادارے، عدلیہ اور چاروں صوبوں کی حکومتوں سے براہ راست رابطہ رکھنا ہوتا ہے۔

موجودہ الیکشن کمیشن اگرچہ چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے، لیکن اس کے باوجود رولز آف بزنس کے تحت سیکرٹری کی بھی بہت بڑی اہم ذمہ داری ہوتی ہے اور وہ اپنے محکمے کا پرنسپل اکاؤنٹس آفیسر بھی ہوتا ہے اور تمام مالیاتی امور کا وہی محافظ اور ذمہ دار ہوتا ہے۔

ایسے موقعے پر ان کی صحت کے بارے میں جو خبریں آ رہی ہیں، اس سے محکمے کو یقیناً دھچکا پہنچا ہے۔

چیف الیکشن کمشنر کو حساس ترین پوسٹ پر کسی اہم ذمہ دار بیورو کریٹ کا تقرر کرنے کے لیے اپنے صوابدیدی اختیارات حاصل کرنے ہوں گے۔ الیکشن سروسز رولز 1968 کے مطابق الیکشن کمیشن کے اختیارات فیڈرل سیکرٹریٹ کے مساوی ہیں اور الیکشن کمیشن میں اہم تقرریوں کے حوالوں سے ان کے اختیارات وزیراعظم پاکستان کے مساوی ہیں، لہٰذا انہیں چاہیے کہ اپنے اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے سیکرٹری الیکشن کمیشن کا تقرر فوراً کریں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

میری اطلاع کے مطابق عمر حمید کی صحت بےحد خراب ہے اور وہ سپریم کورٹ میں حاضری کے موقعے پر بھی عدالت کی دہلیز پر بےہوش ہو گئے تھے۔

ایک اور معاملہ یہ ہے کہ عام انتخابات کے انعقاد میں ایک ماہ سے بھی کم عرصہ رہ گیا ہے لیکن بعض اہم سیاسی جماعتوں نے جماعت کے منشور ابھی تک پیش نہیں کیے جب کہ کسی بھی سیاسی اور جمہوری معاشرے میں سیاسی جماعتوں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

سیاست اور جمہوریت کا بنیادی تعلق بھی ہمیں سیاسی جماعتوں کی اہمیت اور وجود سے نظر آتا ہے کیونکہ جہاں سیاسی جماعتیں مضبوط ہوں گی، وہیں سیاست اور جمہوریت کا باہمی تعلق اور زیادہ مضبوط ہو گا۔

سیاسی جماعتوں کی اہمیت ان کے سیاسی فلسفے، فکر و سوچ سمیت انتخابی منشور کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ سیاسی سطح پر سیاسی جماعتیں عوامی رائے عامہ کو متاثر کرنے یا ووٹروں کو اپنے خیالات پر ترغیب دینے کے لیے انتخابی منشور پیش کرتی ہیں۔

عمومی طور پر ہمارے ہاں سیاسی جماعتیں انتخابات سے چند دن قبل منشور پیش کرتی ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں انتخابی مہم پر مبنی سیاست میں انتخابی منشور کی اہمیت بہت کم نظر آتی ہے، زیادہ تر انتخابی مہم ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی اور الزام تراشیوں پر مبنی ہوتی ہے۔

سیاسی جماعتوں کا منشور محض انتخابات کے دوران ہی سامنے ہوتا ہے۔ عمومی طور پر ہر سیاسی جماعت کا ایک مستقل سیاسی منشور ہوتا ہے اور وہ وقت و حالات کی بنیاد پر تبدیل ہو سکتا ہے۔

پنجاب کے وزیراعلیٰ سید محسن نقوی نے بھی خیبر پختونخوا میں بگڑتی ہوئی امن و امان پر تشویش کا اظہار کیا ہے، اس پس منظر میں صوبہ بلوچستان، صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی حکومتیں اندرونی طور پر امن و امان کے حوالے سے اپنی تشویش ظاہر کر چکی ہیں۔

2018 میں سیاسی اور انتخابی حالات نواز شریف کے خلاف تھے تو سپریم کورٹ نے نواز شریف کے خلاف فیصلے دیے اور 2024 میں حالات نواز شریف کے لیے سازگار ہو گئے تو سپریم کورٹ نے نواز شریف کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 62 (1) ایف کو ماورائے آئین قرار دے دیا۔

سیاست دان اپنی کمزوریوں کی وجہ سے اداروں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں اور عوامی رائے کی اہمیت کو نظرانداز کرتے ہیں۔ اگر بادی النظر میں تجزیہ کیا جائے تو جسٹس یحییٰ آفریدی کے اختلافی نوٹ میں بڑا وزن ہے، جن کا کہنا ہے کہ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی نہ تاحیات ہے اور نہ ہی مستقل۔ عدالتی ڈیکلریشن باقی رہنے تک نااہلی رہے گی۔

حاصلِ کلام یہ ہے کہ آٹھ فروری کے عام انتخابات خطرات کی زد میں ہیں اور سیاسی ماحول میں نفرت، اشتعال، مفاد پرستی اور عدالتی بازپرس نے ایسی فضا پیدا کر دی ہے، جس کے نتائج کے بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔

 

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک  کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر