شفیلڈ میں چرچ سے ٹی بیگ، کافی، چینی اور بسکٹوں کی چوری

چوروں نے سیسے سے بنی ہوئی جن کھڑکیوں کو توڑا انہیں تبدیل کرنے میں تقریباً ایک ہزار پاؤنڈز لاگت آئے گی کیوں کہ وہ 1878 میں چرچ کی تعمیر کے وقت کی ہیں۔

شفیلڈ میں واقع سینٹ جیمز ووڈ ہاؤس چرچ (ووڈ ہاس چرچ فیس بک)

ایک چرچ کو ایک سال میں چوروں نے چھٹی بار نشانہ بنایا ہے جو ’چائے کے بیگ، کافی، چینی اور بسکٹ‘ لے کر فرار ہو گئے۔

شیفیلڈ میں سینٹ جیمز ووڈ ہاؤس پر حملوں کے سلسلے میں حالیہ حملے کے دوران 150 سال پرانی شیشے کی کھڑکی بھی توڑ دی گئی ہے۔

گرجا گھر پر ہونے والے حملوں میں اکثر چائے کے بیگ، کافی اور بسکٹ جیسی چیزیں بھی اٹھالی جاتی ہیں۔

تازہ ترین واقعہ 13 جنوری کو پیش آیا تھا جس میں چوروں نے گرجا گھر کے باہر رکھا لکڑی کا ایک بیرئیر بھی توڑ دیا۔

انہوں نے جن کھڑکیوں کو توڑا انہیں تبدیل کرنے پر تقریبا ایک ہزار پاؤنڈ لاگت آئے گی کیوں کہ یہ 1878 میں گرجا گھر کی تعمیر کے وقت کی ہیں۔

ریورنڈ جون فاکس نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ بہت کم فائدے کے لیے تباہ کن نقصان ہے۔ کھڑکیوں کی عمر کو دیکھتے ہوئے مجھے اس نقصان کا بہت افسوس ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا: چار میں سے  تین بار، انہوں نے چائے کے بیگ، کافی، چینی، بسکٹ چرائے ہیں، ایسی چیزیں ہم ضرورت مند لوگوں کو خوشی سے دیتے ہیں۔

’اگر آپ کو واقعی ان اشیا کی اتنی ہی ضرورت ہے، تو آئیں اور ہم سے بات کریں، آئیں اور چائے اور ٹوسٹ کھائیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس واقعے کے ردعمل میں مقامی کمیونٹی نے چرچ کی مدد کے لیے فنڈز جمع کرنے کی خاطر ایک جسٹ گیونگ پیج بنایا ہے۔

فنڈ ریزر، جس نے اب تک 850 پاؤنڈ جمع کیے ہیں، نے کہا ’(چور) چرچ کو اپنے دروازے بند کرنے کے قریب دھکیل رہے ہیں۔ ہم ان کھڑکیوں کی مرمت کے لیے یہ عطیات کا صفحہ بنا رہے ہیں تاکہ ایک تاریخی عمارت کو فعال

رکھنے میں مدد مل سکے۔

’ہم ایک ساتھ مضبوط ہیں۔ براہ مہربانی مدد کریں۔‘

شیفیلڈ سٹار کی رپورٹ کے مطابق گرجا گھروں کے رہنما اب اپنی سکیورٹی تبدیل کرنے پر غور کر رہے ہیں تاکہ چوریوں کی تعداد میں اضافے کا مقابلہ کیا جا سکے اور انہوں نے سکیورٹی شٹر نصب کرنے پر بھی غور کیا ہے۔

مسز فاکس نے کراؤڈ فائنڈر کے جواب میں براڈکاسٹر کو بتایا کہ ’یہ بہت اطمینان بخش ہے کہ یہ عمارت لوگوں کے لیے بہت معنی رکھتی ہے۔

’ووڈ ہاؤس اس لحاظ سے ایک حیرت انگیز کمیونٹی ہے۔‘

ساؤتھ یارکشائر پولیس نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ اس نے ان واقعات کی ’مکمل تحقیقات‘ کی ہیں تاہم کسی مشتبہ شخص کی شناخت نہیں کی گئی ہے۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ، ’یہ تحقیقات اس وقت تک ملتوی کی گئی ہیں جب تک کہ مزید تحقیقات کا موقع سامنے آتا۔‘

انڈیپنڈنٹ نے اس حوالے سے تبصرہ کے لیے ساؤتھ یارکشائر پولیس سے رابطہ کیا ہے۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ