انڈین سپریم کورٹ نے سرکاری فیکٹ چیک یونٹ کا قیام روک دیا

انڈین حکومت نے ایک فیکٹ چیک یونٹ قائم کرنا تھا جو فیس بک، انسٹاگرام، یوٹیوب اور ایکس جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو غلط خبریں ہٹانے کا پابند کر سکتا تھا۔

صحافی نو جولائی 2018 کو نئی دہلی میں انڈیا کی سپریم کورٹ کی عمارت کے احاطے میں بیٹھے ہیں (اے ایف پی)

انڈیا کی سپریم کورٹ نے 21 مارچ کو سرکاری فیکٹ چیکنگ یونٹ (پی آئی بی ایف سی یو) کے قیام کے اس سرکاری نوٹیفکیشن کو روک دیا ہے جس کے تحت مرکزی حکومت کے ’معاملات‘ کے بارے میں جعلی خبروں یا غلط معلومات کی تخلیق اور پھیلاؤ کی ’روک تھام‘ کے لیے استعمال کیا جانا تھا۔

انڈین حکومت نے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا تھا جس کے تحت پریس انفارمیشن بیورو میں ایک فیکٹ چیک یونٹ قائم کرنا تھا جو فیس بک، انسٹاگرام، یوٹیوب اور ایکس جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو غلط خبریں ہٹانے کا قانونی طور پر پابند کر سکتا تھا۔

چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ کی صدارت میں ایک تین رکنی بنچ نے ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا (ای جی آئی) اور سٹینڈ اپ کامیڈین کنال کامرا کی درخواستوں پر یہ حکم دیا۔

بنچ نے کہا کہ 20 مارچ 2024 کے نوٹیفکیشن پر عمل درآمد اس وقت تک روک دیا جائے جب تک ممبئی ہائی کورٹ کے تیسرے جج انفارمیشن ٹیکنالوجی (انٹرمیڈیری گائیڈ لائنز اینڈ ڈیجیٹل میڈیا ایتھکس کوڈ) رولز 2021 کے رول 3 (1) (بی) (وی) کی دفعات کی بنیاد پر حتمی فیصلہ نہیں کرتے۔

ملک کے انگریزی اخبار انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق اس اقدام کے بعد سوشل میڈیا پلیٹ فارمرز اب قانونی طور پر اس فیکٹ چیک یونٹ کے ذریعے غلط معلومات قرار دیے جانے والے مواد کو ہٹانے کے پابند ہو جاتے بصورت دیگر ان کو قانونی چارہ جوئی کا خطرہ ہوتا۔

تازہ عدالتی فیصلہ فیکٹ چیکنگ یونٹ (ایف سی یو) کے قیام کو روکنے سے انکار کرنے والے بمبئی ہائی کورٹ کے عبوری حکم کے خلاف ایک اپیل پر سامنے آیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس ترمیم شدہ آئی ٹی قوانین کو گذشتہ سال کامیڈین کنال کامرا، ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا اور کچھ میڈیا تنظیموں نے بمبئی ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ جسٹس گوتم پٹیل اور جسٹس نیلا کے گوکھلے نے الگ الگ فیصلہ سنایا جس میں ایک نے حکم امتناعی اور دوسرے نے اسے برقرار رکھا۔ حکم امتناعی کے اپنے فیصلے میں جسٹس پٹیل نے کہا کہ اس سے آزادی اظہار اور آزادی صحافت کے حق پر گہرا اثر پڑے گا۔

فیکٹ چیک یونٹ انڈیا میں ایک متنازع مسئلہ رہا ہے جس میں حکومت کی جانب سے ان معاملات میں بطور نگران کام کرنے کے بارے میں تشویش ہے جہاں اس کے مفادات کا ٹکراؤ ہو سکتا ہے۔ آزادی صحافت پر اس کے ممکنہ اثرات کے بارے میں بھی خدشات ہیں، خاص طور پر حکومت پر تنقیدی رپورٹیں شائع کرنے کی صورت میں۔

ادھر سوشل میڈیا پلیٹ فارم میڈیا کمپنیوں کے لیے ایک بطور اہم نگران ادارہ بننے کے ساتھ ساتھ ایف سی یو کی جانب سے کسی رپورٹ کو جعلی قرار دینے سے پلیٹ فارم کو اسے ہٹانے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔

کانگریس، ترنمول اور آر جے ڈی جیسی اپوزیشن جماعتوں نے گذشتہ سال اس فیصلے پر سخت تنقید کی تھی جس کے بعد حکومت نے انہیں یقین دلایا تھا کہ حکومت کی حمایت یافتہ فیکٹ چیک باڈی ایک ’قابل اعتبار‘ طریقے سے کام کرے گی۔

رپورٹس کے مطابق جب یہ یونٹ کسی مواد کو ’جعلی‘ قرار دیتا ہے تو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو اسے آئی ٹی قوانین کے تحت ہٹانا ہوگا۔ درحقیقت، نہ صرف سوشل میڈیا کمپنیاں بلکہ جیو اور ایئر ٹیل جیسی انٹرنیٹ اور ٹیلی کام سروس فراہم کرنے والی کمپنیوں کو بھی اس معلومات کو بلاک کرنا پڑے گا یعنی کسی خاص رپورٹ کا ویب لنک ممکنہ طور پر بلاک کیا جا سکتا ہے۔

جنوری 2023 میں آئی ٹی کی وزارت نے آئی ٹی رولز 2021 میں ترامیم کا مسودہ جاری کیا تھا جس میں پی آئی بی کے فیکٹ چیک یونٹ کو سوشل میڈیا پر موجود مواد کی نگرانی کرنے اور مرکز سے متعلق غلط معلومات کے مبینہ مواد کو ریڈ فلیگ کرنے کے اختیارات دینے کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ اپریل میں حتمی قوانین میں پی آئی بی یونٹ کی بجائے مرکزی حکومت کے فیکٹ چیک یونٹ نے جگہ لے لی تھی۔

ماہرین نے اس پر خدشات کا اظہار کیا تھا کہ یہ تبدیلی ممکنہ طور پر سٹیک ہولڈرز کی ایک حد کو متاثر کر سکتی ہے جن میں حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں اور صحافی بھی شامل ہیں۔

اپوزیشن جماعتوں کانگریس، ٹی ایم سی، آر جے ڈی اور سی پی آئی (ایم) نے گذشتہ سال حکومت کے اس فیصلے پر سخت تنقید کی تھی۔ اسی طرح ڈیجیٹل حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں اور کارکنان اور پریس ایسوسی ایشنز جیسے ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا نے بھی ان قوانین کو ’سخت‘ قرار دیتے ہوئے مذمت کی تھی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی