کون سی نگری ویزا فری: کمبوڈیا

دنیا میں چند ہی ممالک ہیں جہاں پاکستان کے شہریوں کو جانے کے لیے پیشگی ویزے کی ضرورت نہیں اور جنوب مشرقی ایشیا کا ملک کمبوڈیا بھی انہی میں سے ایک ہے۔

نگری نگری ویزا فری کے سلسلے کی اس چھٹی قسط میں ہم کمبوڈیا کا ذکر کریں گے۔


جنوب مشرقی ایشیا کے قلب میں واقع کمبوڈیا ایک ایسا ملک ہے جہاں بھرپور ثقافتی ورثہ، قدیم تاریخ اور دلکش قدرتی مناظر کا دلفریب امتزاج ملتا ہے اور یہاں جانے کے لیے پاکستانی شہریوں کو پیشگی ویزے کی ضرورت بھی نہیں۔

کمبوڈیا انگکور واٹ کے شاندار مندروں کے لیے دنیا بھر میں مشہور ہے۔

کمبوڈیا کیسے جائیں؟

پاکستان سے کمبوڈیا جانا کچھ زیادہ مشکل یا مہنگا نہیں۔ کئی ہوائی کمپنیاں آپ کو اسلام آباد، لاہور اور کراچی سے وہاں لے جا سکتی ہیں، تاہم براہ راست پروازیں نہ ہونے کی وجہ سے یہ کمپنیاں بیچ میں اپنے ملک میں ضرور رکیں گی۔ 

کمبوڈیا میں کیا دیکھیں؟

انگکور واٹ اور انگکور آرکیالوجیکل پارک: یہ مشہورِ زمانہ آثارِ قدیمہ یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل ہیں جو ہر سال دنیا بھر سے لاکھوں سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ تقریباً چار سو ایکڑ پر مشتمل یہ کمپلیکس گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز کے مطابق دنیا میں مذہبی عمارتوں کا سب سے بڑا کمپلیکس ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گھنے درختوں میں گھرے ہوئے یہ مندر 12ویں صدی میں خمیر سلطنت کے دور میں ہندو دیوتا وشنو کے لیے تعمیر کیے گئے تھے مگر بعد میں بدھ معبد بنا دیے گئے۔ کمبوڈیا کا جھنڈا دنیا کا واحد پرچم ہے جس پر کسی عمارت کی تصویر ہے اور وہ یہی انگکور واٹ ہے۔

نوم پین: دارالحکومت نوم پین روایتی خمیر فن تعمیر اور جدید طرزِ تعمیر کا امتزاج ہے۔ کمبوڈیا کی حالیہ تاریخ کو سمجھنے کے لیے شاہی محل، قومی عجائب گھر اور اہم لیکن اہم Tuol Sleng Genocide Museum اور Killing Fields دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔

ٹونلے سیپ (Tonlé Sap) جھیل: جنوب مشرقی ایشیا کی سب سے بڑی میٹھے پانی کی جھیل کمبوڈیا میں واقع ہے جس کا رقبہ 10 ہزار مربع کلومیٹر ہے۔ یہ جھیل بارشوں میں ڈرامائی طور پر پھیل اور خشک سالی کے موسم میں سکڑ جاتی ہے۔

کمبوڈیا کی تاریخ؟

قدیم خمیر سلطنت سے لے کر خمیر روج حکومت کے سیاہ دنوں تک، کمبوڈیا کی تاریخ بہت طویل، تابناک اور خونی رہی ہے۔ انگکور دور (نویں سے 15ویں صدی) خمیر تہذیب کے عروج کا دور تھا، جب اس کی حکومت جنوب مشرقی ایشیا کے خاصے حصے تک پھیلی ہوئی تھی۔ اسی دور میں انگکور کے مندروں کے احاطے کی تعمیر ہوئی تھی۔

1963 میں کمبوڈیا کو فرانس سے آزادی ملی۔ 20 ویں صدی میں، کمبوڈیا کو تباہ کن خمیر روج ڈکٹیٹرشپ کا سامنا کرنا پڑا، جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوا اور ایک اندازے کے مطابق 15 لاکھ سے زیادہ لوگ مارے گئے۔ آج بھی یہاں لاکھوں بارودی سرنگیں موجود ہیں جو اس ملک کے تاریک ماضی کی یاد دلاتی ہیں۔

کمبوڈیا کے بارے میں پانچ دلچسپ باتیں

  1. کمبوڈیا میں ہندو مذہب کا خاصا اثر رہا ہے۔ انگکور واٹ کمپلیکس کا نام بھی سنسکرت سے آیا ہے۔ انگکور نگر سے نکلا ہے، جو اردو میں بھی شہر کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔
  2. کمبوڈیا کا نام بار بار تبدیل ہوتا رہا ہے، اور 1953 کے بعد سے اسے پانچ بار بدلا جا چکا ہے۔ ہر نئی حکومت آنے کے بعد ملک کا نام بدل دیتی تھی اور اسے ماضی میں کنگڈم آف کمبوڈیا، خمیر رپبلک اور کمپوچیا جیسے ناموں سے پکارا گیا ہے۔
  3. تاہم شکر ہے کہ پچھلے 30 سالوں سے ملک کا نام کمبوڈیا ہی ہے، ورنہ سوچیں کہ آپ وہاں کے شہری ہوں اور آپ کو شناختی کارڈ، پاسپورٹ اور دوسری سرکاری دستاویزات ہر پانچ دس سال بعد بدلنی پڑیں!
  4.  تیرتے دیہات: کمبوڈیا اپنے تیرتے دیہات کے لیے جانا جاتا ہے۔ انہی تیرتے ہوئے دیہات پر مکانات، سکول اور بازار بنائے جاتے ہیں۔
  5. ریال اور امریکی ڈالر: کمبوڈیا کی سرکاری کرنسی کمبوڈین ریال ہے لیکن یہاں بڑے پیمانے پر امریکی ڈالر بھی قبول کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے سیاحوں کو آسانی رہتی ہے۔
  6. کمبوڈیا کا شمار دنیا کے چند گنے چنے ملکوں میں ہوتا ہے جہاں میکڈونلڈز نہیں ہے۔ البتہ یہاں کے ایف سی ضرور موجود ہے مگر اسے بری طرح سے نقصان ہو رہا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہاں کے لوگ فاسٹ فوڈ کے زیادہ شوقین نہیں ہیں۔

کمبوڈیا میں پاکستانی سفارت خانہ

پاکستان کا سفارت خانہ دارالحکومت نوم پین میں مکان نمبر 45، گلی 310، سنگکت بوئنگ کینگ کانگ میں واقع ہے۔  

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین