کیا شعیب اور حفیظ کی کرکٹ ختم ہوچکی ہے؟

سری لنکا کے خلاف 20 ممکنہ کھلاڑیوں میں دونوں شامل نہیں جس کے بعد یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا یہ کھلاڑی آئندہ کبھی قومی کرکٹ ٹیم کا حصہ بن پائیں گے؟

شعیب اور حفیظ کے مداح بین الاقوامی کرکٹ کے میدانوں  میں   اِن دونوں آل راؤنڈروں کی کمی ضرور محسوس کریں گے (اے ایف پی)

سری لنکا کے خلاف 20 ممکنہ کھلاڑیوں میں شعیب ملک اور محمد حفیظ شامل نہیں جس کے بعد یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا یہ کھلاڑی آئندہ کبھی قومی کرکٹ ٹیم کا حصہ بن پائیں گے؟

پاکستان کرکٹ میں متعدد ایسے کھلاڑی ہیں جنہوں نے اپنی کرکٹ کا آغاز بحیثیت بولر کیا مگر جلد ہی آزمودہ بیٹسمین کے روپ میں سامنے آ گئے۔

آصف اقبال، ماجد خان، اظہر علی اس کی مثال ہیں لیکن ان سب میں سب سے نمایاں نام شعیب ملک کا ہے جنہیں خوش قسمتی سے کم عمری میں ہی اعلیٰ درجے کی کرکٹ کھیلنے کو مل گئی۔

1999 میں ویسٹ انڈیز کے خلاف میچ میں شعیب ملک کو اُس وقت موقع ملا جب ثقلین مشتاق کمر کی تکلیف کے باعث میسّر نہیں تھے اور پاکستان کو ایک اچھے سپنر کی ضرورت تھی۔

سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے 17 سالہ شعیب ملک پر معین خان کی نظر پڑ چکی تھی اور انہوں نے کپتان وسیم اکرم کو شعیب کو کھلانے کا مشورہ دیا۔ پاکستانی کھلاڑیوں کی عمروں کا سکینڈل ہمیشہ لوگوں کی زبانوں پر رہا ہے لیکن شعیب ملک نے اپنی فٹنس سے ہمیشہ اپنی عمر کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ثقلین مشتاق کے ایکشن کی نقل کرنے والے شعیب ملک آئے تو بولر کی حیثیت سے تھے، لیکن آہستہ آہستہ قابل اعتماد بیٹسمین کے روپ میں جوہر دکھانے لگے اور اپنے کیریئر کے ابتدائی سالوں میں ہی منجھے ہوئے آل راؤنڈر بن گئے اور محدود اوورز کی کرکٹ میں ٹیم اُن پر انحصار کرنے لگی۔

تاہم ان کی کرکٹ کو صحیح جِلا آنجہانی باب وولمر کی کوچنگ میں ملی جو شعیب کی صلاحیتوں کے معترف تھے اور انہوں نے ہی شعیب کو ایک بیٹنگ آل راؤنڈر میں تبدیل کر دیا۔

اس صدی کے ابتدائی برسوں میں پاکستان نے بھارت کے خلاف کئی سیریز کھیلیں اور شعیب نے زیادہ میچوں میں پاکستان کی جیت میں اہم کردار ادا کیا۔

سات ہزار پانچ سو رنز سکور کرنے اور ایک سو 50 سے زائد وکٹیں لینے والے شعیب ملک کے کریڈٹ پر کئی ایسے میچ ہیں جہاں ان کی ذمہ دارانہ بیٹنگ نے پاکستان کو فتح سے ہمکنار کیا۔ البتہ ان کے بولنگ ایکشن پر سوالیہ نشان اٹھنا شروع ہو گئے، خاص طور پر ان کا ’دوسرا‘ قابلِ اعتراض ٹھہرا اور نتیجہ یہ نکلا کہ رفتہ رفتہ انہوں نے بولنگ کو خیرباد کہہ دیا۔ 

اب ایسا لگتا ہے کہ ان کے لیے پاکستان کرکٹ کے دروازے بند ہو چکے ہیں۔ انہوں نے مختصر دورانیے کی 20 اوورز کی کرکٹ سے ریٹائرمنٹ نہیں لی ہے لیکن غالباً اپنے ہی ملک کی کرکٹ میں ان کے لیے جگہ نہیں رہی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ گذشتہ ورلڈکپ میں وہ خاطر خواہ کارکردگی نہیں دکھا سکے، لیکن کیربیئن لیگ میں انہوں نے کئی اچھی اننگز کھیلیں اور پھر اپنی فٹنس میں وہ اب بھی بہت سے نوجوان کھلاڑیوں سے بہت آگے ہیں۔

محمد حفیظ اس معاملے میں شعیب ملک سے پیچھے نظر آتے ہیں، کیونکہ حفیظ کبھی بھی بیٹنگ میں وہ تسلسل نہ دکھا سکے جس کی ضرورت تھی لیکن اپنی بولنگ کی بدولت وہ ہمیشہ ٹیم کا لازمی جزو رہے۔ نپی تلی بولنگ جس میں بیٹسمینوں کو کھیلنے میں ہمیشہ دِقت پیش آتی رہی، حفیظ کی خاصیت رہی ہے۔ خاص طور پر بائیں ہاتھ کے بلے بازوں کے لیے وہ ہمیشہ تیر بہ ہدف ثابت ہوئے ہیں۔

لیکن ایکشن کئی بار رپورٹ ہونے سے ان کا اعتماد مجروح ہوا اور بولنگ میں وہ کاٹ بھی نہ رہی۔

حفیظ نے بھی کئی مواقع پر پاکستان کے لیے فتح گر اننگز کھیلیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ اب ان کو بھی شاید گھر جانا پڑے۔

دونوں کھلاڑیوں کو نہ کھلا کر پاکستان کرکٹ بورڈ تمام سینئیر کھلاڑیوں کو پیغام دینا چاہتا ہے کہ اب ان کی ٹیم میں جگہ مشکل ہے اور نئے کوچ مصباح الحق تو کہہ چکے ہیں کہ نوجوان کھلاڑیوں کو زیادہ موقع دینا چاہتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جوان خون صرف کھلاڑیوں میں ہی کیوں چاہیے؟ کیا 75 سالہ پی سی بی چیئرمین کی جگہ کسی جوان خون کو نہیں آنا چاہیے؟

حفیظ اور شعیب کے نہ ہونے سے مستقبل قریب میں تو شاید کوئی کمی محسوس نہ ہو کیونکہ سری لنکا کی تیسرے درجہ کی ٹیم سے ہوم گراؤنڈ پر سیریز تو ایک بازیچہ اطفال ہی ہوگا لیکن اگلی سیریز میں آسٹریلیا کے خلاف دونوں کی کمی کسی کمزوری کا سبب بن سکتی ہے کیونکہ حفیظ کے بعد ٹیم میں کوئی مستند بولر نظر نہیں آتا جو رنز روک بھی سکے اور وکٹیں بھی لے سکے۔ 

شعیب اور حفیظ کے متبادل تو شاید مل بھی جائیں، لیکن ان کے شائقین بین الاقوامی کرکٹ کے میدانوں پر ان دونوں آل راؤنڈروں کی کمی ضرور محسوس کریں گے۔

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ