کراچی: سابقہ بیوی پر بدکرداری کا الزام لگانے پر ملزم کو 80 کوڑوں کی سزا

ملیر کی خاتون جج نے بیٹی کی ولدیت تسلیم کرنے سے انکار کرنے اور سابقہ بیوی پر بدکاری کا جھوٹا الزام لگانے پر مقامی شخص کو 80 کوڑوں کی سزا سنائی۔

(اینواتو)

کراچی کی مقامی عدالت نے سابقہ بیوی پر بدکاری کا الزام لگانے اور بیٹی کی ولدیت سے نکار کرنے والے شخص کو قذف کے قانون کے تحت 80 کوڑوں کی سزا سناٸی ہے۔

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج (ملیر) شہناز بوہیو نے ملزم فرید قادر کے خلاف مقدمے کے فیصلے میں لکھا کہ ’جو شخص قذف کا ارتکاب کرے گا اسے 80 کوڑوں کی سزا دی جائے گی۔‘

عدالت نے فیصلے میں قرار دیا کہ ’بالکل واضح ہے کہ ملزم جھوٹا ہے اور اس نے شکایت کنندہ اپنی سابقہ بیوی پر بیٹی کے ناجائز ہونے کے بارے میں قذف کا الزام لگایا ہے۔ ملزم کی سابقہ بیوی نے عدالت میں داٸر شکایت میں مؤقف اپنایا تھا کہ اس کی ملزم فرید قادر سے شادی فروری 2015 میں ہوئی تھی اور وہ ایک ماہ تک ساتھ رہے۔‘

درخواست گذار نے دسمبر 2015 میں  ایک بچی کو جنم دیا لیکن ان کے شوہر بیوی اور بیٹی کو نان نفقہ فراہم کرنے یا اسے اپنے گھر واپس لے جانے سے انکار کر دیا۔

عدالت نے مجرم کو اپنی بیٹی اور سابقہ بیوی کی کفالت کرنے کی بھی ہادیت کی۔

ابتدا میں ملزم فرید قادر نے بچی کو اپنی بیٹی تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے عدالت میں اس کا ڈی این اے ٹیسٹ کروانے کی درخواست داٸر کی تھی، جو بعدازاں انہوں نے واپس لے لی۔

فرید قادر کی بیوی نے شوہر کی جانب سے لگائے گئے سنگین الزامات پر تعزیرات پاکستان اور قذف آرڈیننس 1979 کے تحت ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ (ملیر) سے رجوع کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوران سماعت ملزم نے اپنی سابقہ بیوی کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ وہ شادی کے بعد صرف چھ گھنٹے ان کےساتھ رہی تھیں۔

انسانی حقوق کی سرگرم رہنما مہناز رحمان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’جج کو اس الزام کے جھوٹا یا سچا ہونے کا کیسے پتا چلا۔ چنانچہ جج نے اس شخص کو قذف آرڈیننس 1979 کے تحت اپنی سابقہ ​​بیوی پر جھوٹے الزامات لگانے کی بنیاد پر سزا سنائی ہے۔ ہم نے ماضی قریب میں ایسی جسمانی سزا نہیں سنی اگرچہ قذف سزا حدود کے آرڈیننس کا حصہ تھی لیکن اس پر کبھی عمل نہیں ہوا۔

’2006 ویمن پروٹیکشن ایکٹ اگر اس نے بیوی پر زنا کا جھوٹا الزام لگایا ہو تو اس پر قذف کی سزا کو خود کار بنا دیا لیکن انسانی حقوق کے کارکن سزائے موت کے ساتھ ساتھ کوڑے جیسی دیگر سزاؤں کے خلاف ہیں، ضیا کے دور سے حقوق نسواں کے کارکن حدود آرڈیننس کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔‘

عبدالستار گجیال ایڈووکیٹ کا کہنا تھا: ’ہماری سوسائٹی میں خواتین کو اس فیصلے سے حوصلہ ملے گا۔ اگر ان کے اوپر کوئی اٹھائے گئے بےہودہ الزامات لگاتا ہے تو انہیں یہ نظر آئے گا کہ انصاف مل سکتا ہے اور وہ کورٹ میں جا سکتی ہیں۔

’لوگ اس بات کے عادی ہو چکے ہیں کہ ہر کمزور کے اوپر جھوٹا الزام لگا کے اس کو سزا دلوائیں۔ لیکن اب خواتین سامنے آئیں گی اور اس سے ایک اچھا رجحان پیدا ہو گا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان