پچھلے پانچ برسوں میں کشمیر میں کیا بدلا؟

دہلی سے سری نگر کا سفر کشمیری مسافروں کے ساتھ ہم کلام ہونے میں گزر جاتا۔ آج طیارے میں چند ہی کشمیری پیچھے کی نشستوں پر بیٹھے تھے جبکہ پورا طیارہ جاپانی اور انڈین سیاحوں سے بھرا پڑا تھا۔

نو اپریل 2024 کی اس تصویر میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت سری نگر کے ایک بازار میں لوگوں کا ہجوم ہے دیکھا جا سکتا ہے (توصیف مصطفیٰ/ اے ایف پی)

لندن میں پانچ سال رہنے کے بعد جب میں نے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر جانے کے لیے ایئرپورٹ کی راہ اختیار کی تو اپنے آبائی گھر پہنچنے کا وہ تجسُس اور جلدی نہیں تھی، جو ماضی میں دوراں سفر میں نے ہمیشہ محسوس کی ہے۔

میرے ذہن میں 2019 کی یادیں تازہ ہیں۔

دہلی سے سری نگر کا سفر کشمیری مسافروں کے ساتھ ہم کلام ہونے میں گزر جاتا۔ آج طیارے میں چند ہی کشمیری پیچھے کی نشستوں پر بیٹھے تھے جبکہ پورا طیارہ جاپانی اور انڈین سیاحوں سے بھرا پڑا تھا۔

کیا کشمیری ہوائی سفر کم کرنے لگے ہیں یا سیاحوں کی تعداد کے باعث ٹکٹ نہیں ملتا یا پھر وہ اب مہنگے ٹکٹ خریدنے کی سکت نہیں رکھتے؟

اپنے ذہن کو جھٹک کر میں نے دوبارہ پیچھے کی جانب نظر دوڑائی شاید کوئی جان پہچان والا نظر آجائے۔ جاپانی سیاح  منہ پر ماسک چڑھائے مزے کی نیند سو رہے تھے اور انڈین کھڑکیوں سے باہر برف پوش پہاڑوں کی فوٹو گرافی میں مصروف تھے۔

آرٹیکل 370 کو ہٹانے کے بعد انڈین آبادی کو باور کرایا گیا ہے کہ اس کے زیر انتظام جموں و کشمیر کو جیسے آزاد کرا کے انڈیا میں شامل کر دیا گیا ہے۔

سرینگر کے ایئرپورٹ سے نکل کر اگر میرے ڈرائیور نے دور سے آواز نہ دی ہوتی تو مجھے غیر کشمیری بھیڑ میں کھو جانے کا احتمال تھا۔

 ایئرپورٹ کچھ خاص بدلا نہیں مگر انجان چہرے استقبال کے لئے نظر آتے ہیں۔

گھر تک جانے والے راستے نئی دوکانوں، ہوٹلوں اور شاپنگ مالز سے بھرے پڑے ہیں۔

سکیورٹی فورسز کی ہر چپے پر بنکر اورموجودگی کم کردی گئی ہے اور پولیس کی سائرن بجانے والی گاڑیاں ٹریفک کے بیچ میں گزر کر اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہیں۔

میں خیالوں میں پانچ سال پہلے کے اُس راستے کو تلاش کرنے لگی جس پر حریت کے رہنماوں سمیت مین سٹریم کے بیشتر بادشاہوں کی جھلک دیکھنے کو ملتی تھی۔ میرا ڈرائیور اگر گاڑی کی بریک دے کر مجھے جھٹک نہ دیتا تو میں سن نوئے کے اُن جلوسوں میں کھو جاتی جو اکثر یہاں سکیورٹی اور عوام کے مابین شدید تکرار کا باعث بنتے تھے۔

اس کا ذکر کرنا شجر ممنوعہ ہے اور کتابوں میں ایسے صفحے غائب کر دیے گئے ہیں۔ بقول ایک دوست ’ہماری تاریخ پانچ اگست 2019 سے لکھی جارہی ہے۔‘

ہر ٹریفک سگنل کے سامنے درجنوں بھکاری گاڑی کو تب تک جانے نہیں دیتے، جب تک آپ جیب میں سے نوٹ نکال کر اُن کے ہاتھوں میں نہیں تھما دیتے۔

میں یہ طے نہیں کر سکی کہ ان سینکڑوں بھکاریوں کو میں کس زمرے میں ڈالوں؟ سیاح یا نئے بسکین در؟

کشمیر کے رنگوں میں مزید کئی رنگ شامل ہو گئے ہیں بلخصوس کیسری نے کشمیر کے گلابی چہروں کو دھو ڈالا ہے۔

بجلی کا ہر کمبھا اب ترنگا بن چکا ہے، بیشتر دیواروں پر کیسری رنگ چڑھانے یا گھر یا دکان کی چھت پر ترنگا لہرانا احساس تحفظ کی علامت بن گیا ہے۔ لگتا ہے کہ ہر طرف سرسوں کی لہراتے کھیتوں کا رنگ ہر ایک شئے پر چڑھ گیا ہے حتیٰ کہ زیورات بیچنے کی ایک بڑی دکان پر سیلز گرلز کا دوپٹہ بھی کیسریا ہو گیا ہے۔

مقامی شہریوں میں کشمیری میں بات کرنے کی عادت نہیں رہی ہے بیشتر لوگ اُردو یا ہندی میں جواب دینے کے قائل ہو گئے ہیں۔ سیاحت کا بھوت زبان کو نگل چکا ہے۔

مجھ پر سکتہ طاری ہوا

کشمیری شناخت چھیننے کا ماتم کرنے والی قوم خود ہی مجرموں کے کٹہرے میں کھڑی ہے۔

نوجوانوں کی ایک چھوٹی تعداد کو مستقبل کی نئی گلیوں میں داخل ہونے کا دعویٰ کرتے سُنا۔

یہ گلیاں روشن ہیں یا تاریک؟ اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔

کشمیر کی اس بھیڑ میں چند اکا دُکا چہروں پر بے بسی کی ایک لمبی داستان لکھی ہوئی ہے، جن کو پڑھنے کے لیے اب کسی کے پاس وقت نہیں رہا ہے۔

انڈیا کے سو سمارٹ شہروں کی فہرست میں سرینگر شامل ہے، جس کے آثار ہر دو گز کے فاصلے پر نظر آتے ہیں، جیسے چند برس پہلے ہر 10 گز پر شناختی کارڈ دکھانے کی بندش ہوتی تھی، وہ تقریبا ختم ہو چکا ہے مگر سمارٹ سٹی کے رنگوں نے ایک نئے کشمیر کی بنیاد ڈالی ہے۔

عوام جی ٹونٹی کے نشانات، ترنگا میں لپٹے رنگین پُل اور ٹریفک سائن بورڈ  دیکھنے کے قائل ہو گئے ہیں یا کر دیے گئے ہیں؟  اس کا تعین کرنے کی اجازت ابھی نہیں ملی۔

ڈل جھیل اور دریائے جہلم کے بیشتر حصے کے دونوں کناروں پر صفائی ستھرائی دیکھ کر یا پیدل چلنے والوں کے لیے پاتھ بنانے پر دلی مسرت ہوئی شاید کشمیر کی اس لایف لائن کو بچانے کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ اس اقدام کے لیے بی جے پی کے کئی گناہ معاف کیے جا سکتے ہیں۔

جہلم فرنٹ کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہونے کے بجائے مقامی نوجوانوں کی سگریٹ نوشی یا گانجا پیتے دیکھ کر دل کراہ اُٹھا۔

مگر کتوں کی اچھی خاصی تعداد اور چھینا چھپٹی کے مناظر کئی بار بھاگنے پر مجبور بھی کرتی ہے۔

شام کے وقت پولیس اور نوجونواں کے درمیان کہیں کہیں پر تبادلہ خیال بھی ہوتے دیکھا، یعنی پوچھ تاچھ کی روایت برقرار ہے۔

ایک سیاست دان نے مسکرا کر کہا ’وئی آر ناٹ ئٹ آوٹ آف ووڈس۔‘

چند روز پہلے راجباغ اور لال چوک کو ملانے والے فوٹ برج کے عین بیچ پہنچ کر کسی نے دریائے جہلم میں چھلانگ لگا کر خودکشی کی۔ کافی دیر انتظار کے بعد میں نے خودکشی کرنے والے کے بارے میں پوچھا۔ سب نے خاموشی اختیار کی جبکہ پولیس نے جو جموں و کشمیر کی کم اور کسی دوسری ریاست کی زیادہ لگتی ہے شکارہ بوٹ منگوا کر ڈھونڈنے کی کوشش کی مگر کچھ ہاتھ نہیں آیا۔ ایک روز بعد معلوم ہوا کہ امتحان میں فیل ہونے والے ایک طالب علم نے خودکشی کی ہے۔

خبر سُننے کے چند گھنٹے کے بعد نمازی، پولیس، سیاح اور نوجوان جائے واردات سے چلے گئے۔

نہ کسی دل میں ملال، نہ کسی چہرے پر افسردگی اور نہ کوئی آہ و بقا ہی کر رہا تھا۔ شاید دنیا سفاک اور بے حس بن چکی ہے، کسی کے مرنے یا مارنے سے اب کوئی اثر نہیں ہوتا۔

لال چوک کے چاروں جانب جہاں شاپنگ مالز کی بھرمار ہوئی ہے غریب اور متوسط طبقے کے لیے ہر اتوار کو سنڈے مارکیٹ لگتی ہے۔ میں نے بھی اس مارکیٹ کی بھیڑ کا حصہ بننے کی کوشش میں عام لوگوں سے حال چال جاننا چاہا۔

اکثر لوگوں نے اپنا حال بتانے سے گریز کیا۔

جس نے بات کی اُس نے اُردو یا ہندی میں ایک معنی خیز ہنسی کے ساتھ بولا ’سب چنگا ہے۔‘

اور جو گلی میں پہنچ کر میرے کان میں سرگوشی کرنے لگے وہ کہہ رہے تھے کہ یہ سرزمین جاسوسی کا اڈہ بن چکی ہے، جس میں ’ادھر اور اُدھر ‘ کے دونوں کیمپ بدستور موجود ہیں۔ خاموشی سے سب اپنا کام کر رہے ہیں۔

پلوامہ ضلع میں، میں نے ہمیشہ دہشت اور خوف جھلکتا دیکھا ہے۔ گو کہ علاقے میں کاروباری سرگرمیاں اب کافی بڑھ گئی ہیں مگر دوران سفر روہمو کی جانب میں نے سکیورٹی کے کاروان کو ہاپڑ دھاپڑ میں جاتے ہوئے دیکھا۔

پتہ چلا کہ ایک گاؤں میں سکیورٹی فورسز کی چھاپے کی کارروائی ہونے جا رہی ہے، جہاں چند بندوق برداروں کی کمین گاہ کا پتہ چلا ہے۔ گاؤں والوں کے چہروں پر خوف تھا اور کچھ ہنس کر کہہ رہے تھے  کہ ’ابھی سب چنگا نہیں ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انڈیا کے پارلیمانی انتخابات کا اثر میڈیا تک محدود ہے۔ بیشتر آبادی کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ البتہ مقامی سیاسی جماعتوں کے اپنے کارکنوں کو دوبارہ منظم کرنے کے اقدامات نظر آئے۔ اندرونی خود مختاری کو واپس لانے کے وعدے دوہرائے جا رہے ہیں حالانکہ ابھی یونین ٹریٹری سے ریاست کا درجہ نہیں ملا۔

ایک طرف مقامی جماعتوں نے بی جے پی کو ہرانے کے لیے انڈیا الائنس کے ساتھ اتحاد کیا ہے لیکن دوسری جانب اُدھمپور میں بی جے پی کے سابق وزیر اور کانگریس میں شامل ہونے والے چودھری لال سنگھ کو جتوانے کی باتیں ہو رہی ہیں، جس نے آصفہ کی عصمت ریزی اور ہلاکت کے بعد مجرموں کے حق میں آواز اُٹھائی تھی اور جو پی ڈی پی کی حکومت گرانے کا موجب بھی بنا تھا۔

اس بات کو ماننا پڑے گا کہ موجودہ سرکار نے آمدورفت کو آسان بنانے کے لیے بیشتر سڑکیں اور گلی کوچے پختہ بنائے ہیں۔ شہروں میں بجلی اور پانی دستیاب رکھا ہے، ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی مدد سے روز مرہ کی مشکلات کو دور کرنے کے فوری انتظامات میسر رکھے ہیں۔

ماضی کی مقامی حکومتیں بھی ایسا کر سکتی تھیں مگر بد دیانتی اور اقربا پروری کی عینک نے اُن کی آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی تھی۔

بجٹ کا بڑا حصہ سکیورٹی کے زمرے میں رکھ کر عوام کو بیشتر بنیادی سہولیات سے نہ صرف محروم رکھا گیا بلکہ روز روز کی ہلاکتوں سے تشدد کا گراف ہمیشہ بڑھتا رہا۔

یہ کہا جاسکتا ہے کہ عوامی حلقوں میں اس وقت جتنی نفرت مقامی سیاسی جماعتوں کے لیے پائی جاتی ہے اُس سے تین گنا کم بی جے پی کے خلاف ہے۔ بعض لوگ موجودہ انتظامیہ سے مطمئن نظر آئے جس نے تشدد پر قابو اور بنیادی سہولیات میسر رکھنے کا وعدہ کسی حد تک نبھایا ہے۔

میں یہ وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ بی جے پی کی ہندوتوا پالیسی نہ ہوتی تو انڈیا کے زیر انتظام جموں و کشمیر کی بیشتر آبادی پارلیمان کی تمام نشستیں بی جے پی کے نام کر دیتی۔

یہ تحریر مصنف کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر