جب پی ٹی آئی کے بھیدی لنکا ڈھانے لگے

پہلے تو اِکّا دُکّا اختلاف ہوا کرتا تھا لیکن پاکستان تحریک انصاف کے بعض وزرا اب تواتر سے، کھل کر اپنی ہی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرنے لگے ہیں۔

گذشتہ برس جولائی میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے اب ان کے مختلف وزرا کے اختلافی بیانات زیادہ تیزی سے سامنے آنے لگے ہیں۔ پہلے تو اِکّا دُکّا اختلاف ہوا کرتا تھا لیکن اب بعض وزرا تواتر سے کھل کر حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرنے لگے ہیں۔

آئیے ان بیانات پر ایک نظر ڈالیں۔

خیبرپختونخوا کی بچیوں کے لیے لازمی عبایا

اس کی تازہ ترین مثال خیبر پختونخوا میں طالبات کے لیے عبایا کی شرط کا فیصلہ بھی شامل تھا، جسے بعدازاں واپس لے لیا گیا۔ اس معاملے پر حکمران جماعت کے وزرا کے بیانات میں تضاد پایا گیا۔

وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے خیبر پختونخوا کے سکولوں کی بچیوں کے لیے عبایا کے اقدام کو احسن قرار دیا تاہم دوسری طرف وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے طالبات کے لیے برقع اور چادر کی پابندی کے فیصلے پر تنقید کی۔

علی محمد خان نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا کہ خیبرپختونخوا میں سکول کی بچیوں کے لیے عبایا، برقع اور چادر کو لازمی قرار دینا احسن اقدام ہے۔ ’میں اس کو عجلت میں واپس لینے کے اقدام سے متفق نہیں۔ یہ فیصلہ بحال کیا جائے۔ میں اس سلسلے میں وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان سے بات کروں گا۔‘

دوسری جانب وفاقی وزیر برائے حقوق انسانی شیریں مزاری نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’لڑکوں کی بدتمیزی کی سزا لڑکیوں کو کیوں دی جائے۔ جو لڑکیوں کو تنگ کریں انہیں سزا ملنی چاہیے۔‘

بجٹ پالیسی پر تنقید

رواں برس جون میں قومی اسمبلی میں بجٹ پر بحث کے دوران سابق وزیر خزانہ اسد عمر نے اپنی حکومت کے بجٹ پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ چینی پر ٹیکس بڑھانا نامناسب ہے، قیمت بڑھانے پر تحقیقات کی جائیں۔ انہوں نے چھوٹی گاڑیوں پر ایف ای ڈی، خوردنی تیل پر ٹیکس اور کھاد کی قیمت میں اضافے پر بھی اعتراض کیا۔

وفاقی کابینہ پر تنقید

لاہور میں ایک نیوز کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے ریلوے شیخ رشید نے اس سال 25 مئی کو ایک بیان میں کہا تھا کہ کابینہ میں ایسے لوگ موجود ہیں جو کونسلر بھی نہیں بن سکتے، لیکن عمران خان نے انہیں وزیر بنا رکھا ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ تحریک انصاف میں قیادت کا بحران ہے اور عمران خان کے علاوہ حکمراں جماعت میں کوئی دوسرا رہنما لیڈر بننے کے قابل نہیں ہے۔

فواد چوہدری

اس سال جون میں ہی وفاقی وزیر برائے سائنس اور ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے ایک ایسا بیان دیا جس سے حکمراں جماعت میں اندورنی اختلافات ابھر کر سامنے آئے۔

فواد چوہدری نے ایک نجی چینل کو انٹرویو میں کہا کہ ’میرا یقین ہے کہ ہماری حکومت کے سیاسی فیصلے کمزور ہیں، اہم فیصلے کیے جاتے ہیں لیکن ہمیں معلوم نہیں ہوتا۔ اس سلسلے میں بہتری کی ضرورت ہے کہ فیصلہ کیسے لیا جائے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تقریباً تمام نجی چینلز نے فواد چوہدری کے بیان کو نشر کیا جس کے بعد حکومتی ترجمان فردوس عاشق اعوان نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’تمام فیصلے عمران خان کی قیادت میں پارٹی لیڈرز کے ساتھ کیے جاتے ہیں۔‘

فواد چوہدری نے بھی بعد میں ٹوئٹر پر تردید کی کہ ’میرے انٹرویو پر مبنی بعض سرخیاں گمراہ کن تھیں۔‘

بعدازاں جولائی میں فواد چوہدری نے حکومتی پالیسی کے مخالف بیان دیتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کے انٹرویوز سنسر کرنے کی بھی مخالفت کی۔ ایک انٹرویو میں فواد چوہدری نے کہا کہ ’خیالات کی لڑائیاں سنسر شپ سے قابو میں نہیں آتیں۔‘

مبصرین کے خیال میں حکومتی وزرا کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ حکومتی پالیسیوں پر بیانات عوامی سطح پر دیں۔ ان کے مطابق حکومت کے اندر اختلافِ رائے کے اظہار کے لیے کابینہ سمیت مختلف فورم موجود ہوتے ہیں، لہذا بہتر یہی ہے کہ پالیسیوں کے حوالے سے اظہارِ رائے کے لیے ان فورموں پر ہی بات کی جائے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان