تیزاب حملہ: شہزاد اکبر کی حکومت پاکستان کے خلاف قانونی کارروائی

شہزاد اکبر نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا ہے ہے کہ ’جسمانی زخم بھر گئے ہیں۔ نفسیاتی گہرے ہیں۔‘

شہزاد اکبر نے دو سال قبل عمران خان کا تختہ الٹنے کے بعد سے برطانیہ میں پناہ لہ رکھی ہے (فائل فوٹو/ انڈپینڈنٹ اردو)

پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کے سینیئر مشیر نے حکومت پاکستان کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز کر دیا۔ ان کے دعوے کے مطابق انہیں شبہ ہے کہ ان پر برطانیہ کے علاقے ہرٹفورڈ شائر میں ان کی رہائش گاہ میں ہونے والے تیزاب حملے میں خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کا ہاتھ ہے۔

پاکستان میں کرپشن پر قابو پانے کی کوششوں کی قیادت کرنے والے شہزاد اکبر نے دو سال قبل عمران خان حکومت کے خاتمے کے بعد سے برطانیہ میں پناہ لے رکھی ہے۔ وہ اس حملے میں اس حوالے سے خوش قسمت رہے کہ ان کی آنکھیں محفوظ رہیں۔

یہ حملہ گذشتہ سال 26 نومبر کو ان کی بیٹی کے سامنے ہوا جس کی عمر اس وقت چار سال تھی۔ وہ اپنی عینک کی وجہ سے بچ گئے تھے ہیں، البتہ عینک کو شدید نقصان پہنچا تھا۔ پلاسٹک کی بوتل سے شہزاد اکبر پر تیزاب اس وقت پھینکا گیا جب انہوں نے روئسٹن میں ہیلمٹ پہنے ایک موٹر سائیکل سوار شخص کے لیے اپنا دروازہ کھولا۔ اس شخص نے ہیلمٹ کی سکرین نیچے کر رکھی تھی۔

اس حملے سے شہزاد اکبر کے سر اور بازو پر تیزاب سے جھلسنے کے زخم آئے جن کا ہسپتال میں علاج کیا گیا اور اس کے مستقل نشانات رہ گئے ہیں۔

شہزاد اکبر نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا ہے کہ ’جسمانی زخم بھر گئے ہیں۔ نفسیاتی مزید گہرے ہو گئے ہیں۔ وہ مجھے پیغام دینا چاہتے تھے کہ ’میں محفوظ نہیں ہوں۔ اس بار وہ مجھے قتل نہیں کرنا چاہتے تھے، لیکن ہم واضح کرتے ہیں کہ وہ ایسا کر سکتے ہیں۔‘

سالیسیٹرز لے ڈے کی جانب سے آج لندن میں پاکستان ہائی کمیشن کو ایک خط موصول ہوا ہے جس میں آئی ایس آئی اور پاکستان فوج کے افسران پر لگائے گئے الزامات میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ وہ شہزاد اکبر کو نومبر 2022 میں قتل کرنے کی کوشش اور ان کے ساتھ کام کرنے والے تحقیقاتی صحافی اور ٹی وی ٹاک شو کے میزبان ارشد شریف کے قتل کے بھی ذمہ دار ہیں۔

شہزاد اکبر کی طرح عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد ارشد شریف نے بھی پاکستان چھوڑ دیا تھا۔

شہزاد اکبر نے دی انڈپینڈنٹ  کو بتایا کہ ان دونوں ہی کو بیرون ملک سے سرکاری افسران اور سیاست دانوں کی جانب سے کرپشن کے خلاف کارروائی جاری رکھنے پر آئی ایس ائی کی طرف سے موت کی دھمکیاں ملی تھیں۔

تاہم ارشد شریف برطانیہ میں پناہ لینے میں ناکام رہے تھے اور اکتوبر 2022 میں کینیا میں پیراملٹری پولیس یونٹ کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔

شہزاد اکبر کے وکلا کے خط میں کہا گیا ہے کہ ان کی (ارشد شریف) موت کو ابتدائی طور پر غلط شناخت کا کیس قرار دیا گیا تھا، لیکن پاکستان کی وزارت داخلہ کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کے مطابق یہ ’غیرملکی کردار کے ساتھ مل کر منصوبے کے تحت کیا گیا ٹارگٹڈ قتل تھا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ گذشتہ سال 27 مئی کو شہزاد اکبر کے بھائی مراد کو اسلام آباد میں ان کی رہائش گاہ سے پولیس وردی میں ملبوس افراد نے اغوا کر لیا تھا۔ بعد میں ان کے خاندان نے حبسِ بےجا کا مقدمہ درج کیا جس کے بعد اسلام آباد کے ایک جج نے ان کی بازیابی کا حکم دیا تھا۔

لیکن پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ان کی گرفتاری یا ان کے ٹھکانے کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کیا، جبکہ اکبر کو آئی ایس آئی ایجنٹس نے بتایا تھا کہ ان کے بھائی کو آزاد کروانے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ وہ پاکستان واپس آئیں اور عمران خان کے خلاف عدالت میں ثبوت پیش کریں۔ عمران خان اس وقت جیل میں ہیں اور ان درجنوں الزامات سامنا کر رہے ہیں جو ان کے حامیوں کے مطابق جھوٹے اور من گھڑت ہیں۔

ایک سینیئر سرکاری عہدیدار نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس میں بھی یہی پیغام دیا تھا، جسے اکبر نے ’بلیک میل‘ کرنے کی کوشش قرار دیا۔ مسٹر اکبر نے اسے مسترد کیا تھا۔

تین ماہ بعد ان کے بھائی کو حراست میں لیا گیا، برطانیہ کے سفارتی دباؤ کے باعث وہ آخرکار رہا کر دیے گئے۔ شہزاد اکبر، جو اس وقت لندن میں ایک انسانی حقوق کی تنظیم کے لیے کام کر رہے ہیں، کا کہنا ہے کہ اس حملے کا اثر ان کی فیملی پر خوفناک تھا:

’مجھے اپنے بچوں کے سکول میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ میں دیگر والدین سے الگ اور بدنام محسوس کر رہا ہوں۔ میری بیٹی اس وقت میرے ساتھ کھڑی تھی جب مجھ پر حملہ کیا گیا اور وہ ٹراما میں ہے۔ میں خود کو اپنے بیوی اور بچوں کو خطرے میں ڈالنے کا گنہگار سمجھتا ہوں۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے پولیس کی مدد سے سکیورٹی سسٹم کا نظام لگایا ہے، ’لیکن آخر میں، اگر وہ مجھے قتل کرنا چاہتے ہیں تو کر دیں گے۔ مجھے امید ہے میری قانونی کارروائی سے ذمہ داران کا احتساب ہو گا۔‘

پاکستان ہائی کمیشن سے ردعمل کے لیے رابطہ کیا گیا ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا