شورش زدہ کشمیر میں ریکارڈ ووٹر ٹرن آؤٹ کی وجہ کیا ہے؟

وزیر اعظم مودی نے فخریہ انداز میں زیادہ ووٹر ٹرن آؤٹ کو اپنی کشمیر پالیسی کی کامیابی قرار دیا ہے لیکن مقامی لوگ اس کے برعکس سوچتے ہیں۔

جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس پارٹی کا ایک حامی 11 مئی 2024 کو سری نگر میں امیدوار آغا سید روح اللہ مہدی کی انتخابی مہم کے دوران پارٹی رہنماؤں کی تصویروں والا بینر اٹھائے ہوئے ہے (توصیف مصطفیٰ/ اے ایف پی)

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں عام انتخابات کے لیے غیر متوقع طور پر زیادہ ووٹر ٹرن آؤٹ دیکھنے میں آیا ہے لیکن اس بات پر رائے منقسم ہے کہ اس کا متنازع خطے کے لیے کیا مطلب ہو سکتا ہے۔

جہاں ہندو قوم پرست نریندر مودی کی حکومت اس ٹرن آؤٹ کو کشمیر پر اپنی پالیسی کے ثمرات بتاتے ہوئے اسے عوامی حمایت کے اظہار کے طور پر پیش کر رہی ہے، وہیں کشمیری رائے دہندگان، سیاست دان اور تجزیہ کار اسے ان لوگوں کی شناخت اور مقامی مفادات کے دعوے کے طور پر دیکھتے ہیں جنہوں نے بار بار شورش زدہ خطے میں نئی دہلی کی حکمرانی کے جواز کو چیلنج کیا ہے۔ 

اس طویل عام انتخابات میں سات مرحلوں میں سے پانچویں مرحلے کے لیے پیر کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں ووٹنگ ہوئی جہاں بارہمولہ میں اب تک کا سب سے زیادہ ٹرن آؤٹ ریکارڈ کیا گیا۔

ایک ایسے حلقے نے، جو علیحدگی پسند عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں کے لیے مشہور تھا، بہار اور مہاراشٹر جیسی ریاستوں کے ٹرن آؤٹ کے اعداد و شمار کو پیچھے چھوڑ دیا۔

بارہمولہ میں تقریباً 59 فیصد رجسٹرڈ ووٹروں نے حصہ لیا جو پانچ سال پہلے کے پارلیمانی انتخابات کے مقابلے میں تقریباً 20 فیصد زیادہ ہے۔

کشمیر کے مرکزی شہر سری نگر میں جب 13 مئی کو ووٹ ڈالے گئے تو ووٹرز کی شرکت کم تھی لیکن اس کے باوجود 38 فیصد کا ٹرن آؤٹ اب بھی 1996 کے بعد سب سے زیادہ تھا اور 2019 کے 13 فیصد ٹرن آؤٹ سے تقریباً تین گنا زیادہ۔

ماضی میں بہت سے کشمیری مسلمان انڈین انتخابات میں شریک نہیں ہوتے تھے جن میں سے کچھ انہیں مرکزی حکومت کو قانونی حیثیت دینے کی مشق کے طور پر دیکھتے ہیں اور اس کی مخالفت کرتے ہیں۔

علاقے میں علیحدگی پسند رہنما اور تنظیمیں معمول کے مطابق انتخابات کے بائیکاٹ کی کال دیتی ہیں۔

بارہمولہ میں پولنگ بند ہونے کے بعد نریندر مودی نے یہاں کے زیادہ ٹرن آؤٹ کو شورش زدہ کشمیر میں امن کی بحالی کے طور پر پیش کیا۔

ہندو قوم پرست حامیوں کے ایک دیرینہ مطالبہ کو پورا کرتے ہوئے مودی حکومت نے 2019 میں انڈین آئین کے آرٹیکل 370 کو ہٹانے ہوئے جموں اور کشمیر کی نیم خود مختاری حیثیت کو ختم کر دیا تھا جو اسے ملک کی واحد مسلم اکثریتی ریاست کو سختی سے قومی دھارے میں ضم کرنے کا ایک طریقہ سمجھتے تھے۔

مودی کے حامیوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اس اقدام سے کشمیر میں آزادی کی تحریک کو ختم کرنے میں مدد ملے گی جس نے 35 سال قبل مسلح شورش کی شکل اختیار کر لی تھی۔

اگرچہ عسکریت پسندی کافی عرصے سے ختم ہو چکی ہے لیکن کشمیر اب بھی کرہ ارض پر سب سے زیادہ فوجیوں کی موجودگی والے مقامات میں سے ایک ہے۔

یہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان ایک جوہری فلیش پوائنٹ بھی ہے جو پہلے ہی اس علاقے پر تین جنگیں لڑ چکے ہیں۔

لیکن نریندر مودی اور ان کے وزیر داخلہ امت شاہ نے بارہمولہ اور سری نگر میں ووٹروں کے ٹرن آؤٹ کو اس بات کے ثبوت کے طور پر پیش کیا کہ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سے کشمیر بدل گیا ہے۔

وزیر اعظم مودی نے کہا: ’میں بارہمولہ کی بہنوں اور بھائیوں کو ان کی جمہوری اقدار سے لازوال وابستگی کے لیے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ (جمہوری عمل میں) اس طرح کی فعال شرکت ایک زبردست رجحان ہے۔‘

امت شاہ نے بھی سری نگر میں پولنگ کے بعد زیادہ دو ٹوک بات کی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے خبر رساں ایجنسی اے این آئی کو بتایا: ’میں آرٹیکل 370 کی منسوخی پر سوال اٹھانے والوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ سری نگر میں ووٹر ٹرن آؤٹ ماضی میں 14 فیصد سے بڑھ کر تقریباً 40 فیصد تک بڑھنا اس فیصلے کی کامیابی کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’انتہا پسند گروپوں کے تمام رہنماؤں نے بھی ووٹ دیا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کس کو ووٹ دیتے ہیں۔

’یہ ان کا حق ہے لیکن کم از کم وہ جمہوری عمل کا حصہ بنے۔ ماضی میں انتخابات کے بائیکاٹ کے نعرے لگائے جاتے تھے لیکن آج انتخابات پرامن طریقے سے ہوئے۔‘

لیکن کشمیری رائے دہندگان ان اعداد و شمار کو مختلف نظریے سے دیکھتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سری نگر میں 30 فیصد پولنگ 1984 میں ریکارڈ کیے گئے ٹرن آؤٹ کا صرف نصف تھی جو مسلح بغاوت شروع ہونے سے پہلے کے آخری قومی انتخابات تھے۔

انہوں نے کہا کہ 2024 میں نسبتاً زیادہ ٹرن آؤٹ کی ایک وجہ یہ تھی کہ کشمیر میں 2018 سے کوئی منتخب حکومت ہی نہیں۔

آخری ریاستی حکومت مودی کی بی جے پی کے ایک علاقائی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ اتحاد سے الگ ہونے کے بعد گر گئی تھی۔

اگلے سال ہی آرٹیکل 370 کی منسوخی کے ساتھ مودی کی حکومت نے ریاست جموں و کشمیر کو دو وفاقی اکائیوں میں تقسیم کر دیا اور مرکزی دھارے کے سیاست دانوں، کارکنوں، صحافیوں، طلبہ اور علیحدگی پسندوں کو جیلوں میں ڈال دیا۔

اس سے ایک سیاسی خلا پیدا ہوا جسے پر کرنے کے لیے کچھ ووٹروں نے حوصلہ افزائی کی۔

بہت سے رائے دہندگان، جنہوں نے پہلے انتخابات میں حصہ نہیں لیا تھا، اگست 2019 کے بعد سے انڈین حکومت کے اقدامات سے عدم اطمینان کا اظہار کرنے کے لیے گھروں سے نکلے۔

سری نگر میں ووٹ ڈالنے والے ہارون خان نے الجزیرہ کو بتایا کہ ’ہم نے بائیکاٹ یا اپنے اختلاف رائے کے اظہار کے لیے احتجاج کے دیگر ذرائع کا انتخاب کرنے سے کچھ حاصل نہیں کیا۔

’میرے بہت سے دوست، پڑوسی برسوں سے جیلوں میں قید ہیں، کسی کو ان کی پرواہ نہیں۔‘

ان کے بقول: ’آج میرے ووٹ دینے کا مقصد اپنے مقامی کشمیری نمائندے کا انتخاب کرنا تھا جو ہماری طرف سے انڈیا سے بات کر سکے۔ میں چاہتا ہوں کہ میرے دوست جیلوں سے رہا ہوں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’کشمیری اپنی شناخت کھو چکے ہیں۔ ہم پر باہر کے لوگ حکومت کر رہے ہیں۔‘

بی جے پی نے وادی کشمیر کے تینوں حلقوں میں سے کسی بھی نشست سے اپنا امیدوار کھڑا نہیں کیا۔

مقامی پارٹیاں جو الیکشن لڑ رہی ہیں، انہوں نے نوکریوں اور انفراسٹرکچر کی بات کرنے کی بجائے ریاست کی بحالی کے لیے انتخابی مہم چلائی۔

ایک کشمیری ماہر سیاسیات پروفیسر نور احمد بابا نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ سری نگر اور بارہمولہ میں ٹرن آؤٹ نے نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک جیسی علاقائی جماعتوں کو کمزور کرنے کی بجائے بی جے پی کی کشمیر کو کنٹرول کرنے کی کوشش کے بارے میں سیاسی بیانیے کو مسترد کر دیا۔

انہوں نے کہا: ’اگر بی جے پی یہ سمجھتی ہے کہ زیادہ ٹرن آؤٹ کشمیر میں ان کے اقدامات کی توثیق ہے تو پارٹی نے اپنا کوئی امیدوار کیوں نہیں کھڑا کیا؟‘

انہوں نے دلیل دی کہ بی جے پی کو کشمیری ووٹر پر اعتماد ہی نہیں۔

اگر وہ اتنا کچھ حاصل کر لیتے اور لوگ خوش ہوتے تو انہیں الیکشن لڑ کر اپنی پوزیشن ثابت کرنی چاہیے تھی۔

بی جے پی میدان سے دور رہی حالانکہ تقریباً ہمیشہ ماضی کے برعکس حریت کانفرنس کی طرف سے بائیکاٹ کی کال نہیں آئی تھی۔

یہ اہم علیحدگی پسند تنظیم 2019 کے بعد سے بہت کمزور ہو چکی ہے۔

لیکن پروفیسر نور احمد بابا کا ماننا ہے کہ ’اپنی پارٹی‘ یا پیپلز کانفرنس جیسی سیاسی جماعتیں جو بی جے پی کی حمایت حاصل کرتی رہی ہیں، کو عوام نے بی جے پی کی ’پراکسی پارٹیز‘ کا نام دیا ہے۔

سری نگر میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار وحید الرحمٰن پارا نے کہا کہ یہ انتخابات ’حکومت کے فیصلوں اور پالیسیوں کے خلاف ایک ریفرنڈم ہے جو عوامی رضامندی کے بغیر نافذ کیے گئے۔‘

نیشنل کانفرنس کے رہنما اور بارہمولہ میں پارٹی کے امیدوار عمر عبداللہ نے کہا: ’اگر لوگ آرٹیکل 370 کی منسوخی سے خوش ہوتے تو بی جے پی کشمیر سے انتخابات لڑنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتی۔ لیکن وہ خود کو بے نقاب نہیں کرنا چاہتے اور اپنا امیج بچانے کے لیے انہوں نے انتخاب نہ لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘

پروفیسر نور بابا نے مزید کہا کہ ’مجھے اطلاعات مل رہی ہیں کہ بارہمولہ میں انجینیئر رشید نامی ایک امیدوار کو جیل میں ہونے کے باوجود زبردست حمایت حاصل ہوئی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ 'رشید کو موجودہ حکومت نے 2019 سے قید کیا ہوا ہے اور انہیں جو حمایت ملی ہے وہ بی جے پی کے خلاف احتجاج کی عکاسی کرتی ہے۔

’ووٹر ٹرن آؤٹ بی جے پی کے اثر و رسوخ سے عدم اطمینان اور اس نمائندگی کی خواہش کی نشاندہی کرتا ہے جو کشمیر میں ان کے اقدامات کی مخالفت کرتی ہے۔‘

ریکارڈ ٹرن آؤٹ کی ایک اور وجہ سری نگر میں اقلیتی ہندو برادری کی شرکت بھی ہو سکتی ہے۔

جیسا کہ امت شاہ کے کہا تھا کہ ’پہلی بار 40 فیصد سے زیادہ بے گھر کشمیری پنڈتوں نے الیکشن میں ووٹ دیا۔ آج تک یہ تعداد کبھی بھی تین فیصد سے تجاوز نہیں کرسکی تھی۔

’اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوگ اب پراعتماد ہیں اور جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا