جب ایک بیٹے کو اپنے محبوس والد کی رہائی کے لیے انہیں پارلیمانی انتخابات میں بحیثیت امیدوار کھڑا کر کے سڑکوں پر انصاف مانگنا پڑے تو اس سے آپ حالات کی سنگینی کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
کشمیر میں بلکہ پوری دنیا میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہوگا جہاں جیل سے رہائی حاصل کرنے کے لیے انتخابی امیدوار بننا پڑا ہے۔
شمالی کشمیر میں انجینیئر رشید کے بیٹوں کا ووٹروں کو مائل کرنا بظاہر انتخابی سرگرمی کا حصہ لگ رہا ہے مگر جب عوامی ریلیوں میں صرف ایک فلک شگاف نعرہ بلند ہو کہ ’ظلم کا بدلہ ووٹ سے‘ اور پانچ برس سے زائد عرصے تک اسیر رہنے والے والد اور دوسرے ہزاروں کشمیریوں کے لیے یہ نعرہ باقی انتخابی سرگریوں پر بھاری پڑتا نظر آ جائے تو یہ ایک نئے اور غیرمعمولی منظر نامے کی تصویر کشی کرتا ہے۔
یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے:
کشمیر کے موجودہ حالات میں یہ یقین کرنا مشکل لگ رہا تھا کہ پہلی بار اسیرانِ کشمیر کی بات کرنے کے لیے ایک بیٹا اتنا بڑا رسک لے گا اور پھر اس پر ردعمل کی شکل میں شمالی کشمیر کی سڑکیں نئی عوامی لہر میں یکایک تبدیل ہوجائیں گی۔
جموں و کشمیر میں محال ہی کوئی بندہ نظر آئے گا، جو پانچ اگست 2019 کے اندرونی خودمختاری ختم کرنے کے فیصلے کے خلاف بات کرنے کی جرات کرتا ہے یا بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی مرکزی سرکار کے کسی بھی فیصلے کے خلاف زبان کھولے۔
ہر شخص مسلسل خوف، دباؤ اور وہم میں گھرا پڑا ہے۔
کشمیر کی تین پارلیمانی نشستوں پر جب امیدواروں کی فہرست میں محبوس سابق رکن اسمبلی انجینیئر رشید کا نام شامل ہو گیا اور انتخابی کمیشن نے بغیر کسی جھجھک کے ان کے کاغذاتِ نامزدگی منظور کر لیے، تو عوام کے بیشتر حلقوں میں پہلے عبجیب طرح کی چہ مہ گوئیاں شروع ہوگئیں کہ اسمبلی کے فلور پر کشمیریوں کے حقوق کی آواز بلند کرنے والا بھی شاید بی جے پی کی گود میں چلا گیا ہے جیسا کہ مزید تین یا چار سیاسی جماعتوں کے بارے میں یہ خیال تقویت پکڑ چکا ہے کہ وہ بی جے پی کی بی یا سی ٹیمیں ہیں، جو اندرونی خودمختاری ختم کرنے کے بعد حالیہ چند برسوں میں سیاسی منظر نامے پر ابھری یا ابھاری گئی ہیں۔
کاغذات نامزدگی منظور ہونے کے فوراً بعد انجینیئر رشید کے بیٹے ابرار اور اسرار نے سڑکوں پر انتخابی مہم شروع کی۔ ان کی آواز پر فوراً نوجوانوں کا ایک سمندر امڈ پڑا جو شاید نہ صرف بی جے پی کے لیے ایک بڑا سرپرائز تھا بلکہ مدمقابل تین جماعتوں نیشنل کانفرنس، پیپلز کانفرنس اور پی ڈی پی کے لیے بھی ایک بڑا چلینج بن گیا۔
بغیر پیسے، بغیر ٹرانسپورٹ اور بغیر کسی سہارے کے انجینیئر رشید کے بیٹوں کے ساتھ تقریباً سارا شمالی کشمیر جُڑ گیا اور اپنی جیب سے پیسے خرچ کر کے انتخابی مہم میں جان ڈال دی۔
کشمیر کے دوسرے علاقوں سے نوجوانوں کے جتھے لنگیٹ پہنچ گئے جہاں انجینیئر رشید کا آبائی مسکن ہے۔
راتوں رات شمالی کشمیر کی سڑکوں پر وہی منظر دیکھا گیا جو ماضی میں آزادی کی تحریک کے دوران دیکھا گیا ہے۔
محبوس نوجوانوں کی رہائی کا مطالبہ کیا جانے لگا، جس پر لاکھوں لوگوں نے لبیک کہا۔ آج تک شاید ہی کسی سیاسی جماعت نے اسیران پر سنجیدگی سے بات کی ہے یا کوئی آواز اٹھائی ہے۔
20 مئی کو شمالی کشمیر کی اس نشست کے لیے ووٹ ڈالے گئے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ رشید کو سابق وزیراعلیٰ عمر عبد اللہ اور پیپلز کانفرنس کے سربراہ سجاد غنی لون سے زیادہ ووٹ پڑے ہیں۔ ووٹوں کی گنتی چار جون کو ہوگی اور اسی روز اس کی حقیقت عیاں ہو گی۔
انجینیئر رشید کے بیٹے ابرار احمد نے عام اعلان کیا کہ وہ نہ تو آرٹیکل 370 کے لیے لڑ رہے ہیں اور نہ خطے کی ترقی کے لیے جیسا کہ دوسری سیاسی جماعتوں کا منشور ہے بلکہ وہ صرف اپنے والد اور دوسرے محبوسین کی رہائی کے لیے ووٹ مانگ رہے ہیں۔
ان کی جذباتی تقریر سن کر کئی بار نوجوانوں پر سکتہ طاری ہوگیا، جو ہزاروں کی تعداد میں خود ہی گاؤں گاؤں اور گھر گھر جاکر انتخابی مہم میں شامل ہوتے گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عوام بالخصوص نوجوانوں کا ردعمل دیکھ کر بعض مخالف جماعتوں نے بیانیہ چلانے کی کوشش کی کہ وہ انتخابات جیتنے کے بعد تحریک آزادی کی سوچ کی دوبارہ آبیاری کریں گے جبکہ بی جے پی کے قریبی سیاست دانوں نے عوام کو بدظن کرنے کے لیے انجینیئر رشید کو بی جے پی کا حلیف قرار دیا۔
انجینیئر رشید کو بندوق برداروں کی فنڈنگ کرنے کے الزام میں اندرونی خودمختاری ختم کرنے کے چند روز بعد 2019 کو این آئی اے نے گرفتار کیا تھا۔ تب سے وہ تہاڑ جیل میں مقید ہیں۔
واضح رہے کہ انجینیئر رشید ماضی میں تحریک آزادی کی سوچ رکھنے والے گروہوں کے قریب سمجھے جاتے رہے ہیں اور کئی بار اقوام متحدہ کی قرارداد حق خود ارادیت کے لیے بیانات بھی دے چکے ہیں۔
انہوں نے قومی دھارے میں شامل ہونے کے بعد عوامی اتحاد پارٹی کے نام سے جماعت بنائی اور دو بار اسمبلی الیکشن میں حصہ لے کر اپنی نشست جیتنے میں کامیاب ہوئے۔
رشید نے کئی بار اسمبلی میں کشمیریوں کے بنیادی حقوق سلب کرنے کے خلاف بھرپور ہنگامے کیے اور شعلہ بیان تقریروں کی وجہ سے ان کی شہرت بڑھ گئی۔
بیشتر تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ انجینیئر رشید کی وجہ سے شمالی کشمیر میں 55 فیصد سے زائد ووٹ پڑے ہیں، جو ایک ریکارڈ ہے۔
یہ بھی خیال ہے کہ ووٹ دراصل بی جے پی کی پالیسی کے خلاف پڑا اور پانچ سال کی خاموشی کے بعد پہلی بار عوام نے اپنے غصے کا اظہار ووٹ سے کیا ہے۔
اس کے برعکس بی جے پی اور وزیراعظم مودی نے ووٹوں کی اس بڑھتی تعداد کو اپنی پالیسی کی کامیابی سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ کشمیریوں نے ماضی کی سوچ کو ترک کرکے ووٹ کو ترجیح دی ہے اور جمہوریت پر اپنا اعتماد پختہ کر دیا ہے۔
چار جون کے نتائج سے یہ اخذ کرنا آسان ہوجائے گا کہ کیا یہ ووٹ نیشنل کانفرنس یا پی ڈی پی کی بی جے پی مخالف پالیسیوں پر پڑا ہے یا بی جے پی کی مبینہ پراکسی جماعتوں کو جو آرٹیکل 370 کو اب تاریخ گردانتے ہیں؟
ان دونوں بیانیے کے بیچ میں انجینیئر رشید کا نیا نظریہ عوامی جذبات کی ترجمانی کرے گا؟ اس کا انحصار شمالی کشمیر کے انتخابی نتیجے اور ان کی رہائی کے بعد ہی عیاں ہوجائے گا۔
بقول شاعر؎
اب تمہارے ہاتھ اس آغاز کا انجام ہے
ہم یہاں کام آگئے آگے تمہارا کام ہے
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔