ایشیا میں بچوں پر جنسی تشدد کی ویڈیوز: پے پال کی تحقیقات

ایسی ویڈیوز اور ان کی ترسیل کے لیے عموما ڈارک ویب کو بھی استعمال کیا جاتا ہے جو ڈیپ ویب کا ایک حصہ ہے۔ 

آسٹریلیا کے مالیاتی ریگولیٹر نے اِن خدشات کے تحت رقم کی منتقلی کے عالمی پلیٹ فارم پے پال کی تحقیقات کا حکم دیا ہے کہ ان رقوم کو جنسی مجرموں کے ذریعے ایشیا کے مختلف ممالک سے بچوں پر جنسی تشدد پر مبنی مواد خریدنے کی غرض سے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

دی آسٹریلین ٹرانزیکشن رپورٹس اینڈ اینالسز سینٹر (آسٹریک) نے منگل کو اس حوالے سے اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وہ بچوں کے جنسی استحصال جیسے سنگین جرائم سے نمٹنے کے لیے اپنے شراکت داروں کے ساتھ کام کر رہا ہے، جس کے لیے فنانشل سروسز سیکٹر کی جانب سے رقوم کی منتقلی کی رپورٹس ملیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق آسٹریک کے چیف ایگزیکٹو آفیسر نکول روز نے بتایا: ’آسٹریلیا میں بیٹھ کر بچوں پر جنسی تشدد کا آن لائن مواد فلپائن جیسے ملکوں سے آرڈر کیا جاسکتا ہے اور بدقسمتی سے اس کے لیے پے پال جیسے پلیٹ فارم کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’یہی وجہ ہے کہ ہم ایک آڈیٹر کی خدمات حاصل کرنا چاہتے تھے تاکہ اس بات کا تعین کیا جاسکے کہ کس قسم کے خطرات ہیں اور  پے پال کے سسٹمز کے حوالے سے مزید کیا مسائل ہوسکتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب پے پال کے آسٹریلیا میں ایک ترجمان نے کہا کہ ’اس جائزے کی ضرورت اُس وقت پیش آئی جب کمپنی کو احساس ہوا کہ وہ ذمہ داریوں کے مطابق بین الاقوامی ادائیگیوں کی مکمل طور پر اطلاع نہیں دے رہی ہے۔‘

بیان میں مزید کہا گیا: ’رپورٹنگ کی یہ ذمہ داریاں مالی جرائم اور ادائیگی کے پلیٹ فارم کے غلط استعمال کے خلاف بین الاقوامی جنگ میں اہم تحفظات ہیں، جنہیں پے پال سنجیدگی سے لیتا ہے۔‘

کمپنی نے مزید کہا کہ یہ آڈٹ اس لیے نہیں کیا جارہا ہے کہ بچوں کے جنسی استحصال سے متعلق جرائم میں ملوث ہونے کی رپورٹس کی تحقیقات ہوسکیں۔‘

آسٹریلیا میں ان خدشات کے تحت پے پال کی تحقیقات جاری ہیں کہ کہیں یہ رقوم بچوں سے جنسی زیادتی کے مواد کی خریدوفروخت کے لیے تو استعمال نہیں ہو رہیں۔ 

ایسی ویڈیوز اور ان کی ترسیل کے لیے عموما ڈارک ویب کو استعمال کیا جاتا ہے۔ جو ڈیپ ویب کا ایک حصہ ہے۔  ڈیپ ویب ایسی ویب سائٹس ہیں، جن تک رسائی سرچ انجن کے ذریعے نہیں کی جا سکتی، مثال کے طور پر فیس بک یا ہاٹ میل وٖغیرہ، جہاں کسی بھی صارف کو اپنی آئی ڈی اور پاس ورڈ کی مدد سے لاگ اِن ہونا ہوتا ہے۔ جب کہ ڈارک ویب دراصل ایک غیر قانونی مارکیٹ  ہے، جہاں بچوں کی فحش ویڈیوز سے لے کر منشیات اور کرائے کے  قاتل تک دستیاب ہوتے ہیں۔

پاکستان کے ضلع قصور میں حالیہ دنوں میں بچوں سے جنسی زیادتی کے بعد انہیں قتل کیے جانے کی خبرٰیں سامنے آئیں۔ اس سے قبل گذشتہ برس جنوری میں بھی سات سالہ زینب سے زیادتی اور قتل کے واقعے کے بعد ضلع قصور کو بچوں سے جنسی زیادتی کے جرائم کا گڑھ کہا گیا تھا۔ ان جرائم کے بعد  ایسے خدشات کا بھی اظہار کیا گیا کہ یہ جرائم ایک نیٹ ورک کے تحت باقاعدہ منظم انداز میں کیے جارہے ہیں اور ان میں ڈارک ویب کا استعمال کیا جا رہا ہے تاہم ان خدشات کی تصدیق نہیں ہوسکی اور سرکاری طور پر ان کی تردید کی گئی۔ ایک نجی نیوز چینل کے اینکر کی جانب سے بھی ایسے ہی کچھ انکشافات کیے گئے تھے، تاہم وہ عدالت میں انہیں ثابت کرنے میں ناکام رہے۔

ان کا موقف یہ تھا کہ قصور کے ان بچوں سے زیادتی کی ویڈیوز ڈارک ویب کے ذریعے بیرون ملک فروخت کی جاتی ہیں اور ان کے ذریعے اچھا خاصا پیسہ کمایا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ ڈارک ویب کو چلانے والوں اور ان کے آئی پی ایڈریسز تک پہنچنا آسان نہیں ہوتا، یہی وجہ ہے کہ یہ جرائم پیشہ افراد کی پسندیدہ ہوتی ہیں اور انہیں ٹریس کیا جانا بہت مشکل ہوتا ہے۔       

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا