انتخابی عمل کے حوالے سے کام کرنے والی غیر سرکاری پتن ترقیاتی تنظیم کی جانب سے تین جولائی کو پریس ریلیز جاری کی گئی تھی، جس میں آٹھ فروری کے انتخابات میں لاہور کے 21 حلقوں کے نتائج پر مبنی فارم 45 ابھی تک الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ سے غائب ہونے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔
اس حوالے سے مؤقف جاننے کے لیے الیکشن کمیشن کے ترجمان سے رابطہ کیا گیا لیکن ان کی جانب سے تاحال کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔
البتہ جب جمعہ (پانچ جولائی) کو پتن ترقیاتی تنظیم کے نیشنل کوآرڈینیٹر سرور باری سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’جب ہم نے تحقیقاتی رپورٹ تیار کی اور پریس ریلیز جاری کی اس وقت تک لاہور کے 21 حلقوں کے متعدد پولنگ سٹیشنز کے فارم 45 غائب تھے اور ان کے بجائے فارم 46 اپ لوڈ کیے گئے تھے۔‘
سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کے مطابق ’الیکشن کمیشن کو فارم 45 پر مشتمل نتائج کا موصول نہ ہونا اور اس سے لاعلمی ممکن نہیں کیونکہ فارم 47 پر مشتمل حلقوں کا مکمل نتیجہ فارم 45 کے نتیجے پر ہی بنا کر جاری کیا جاتا ہے۔‘
قانون دان امجد حسین شاہ کے بقول، ’ہمارے ملک میں جب سے اداروں میں کمپیوٹرائزڈ نظام رائج ہوا ہے اس طرح کی غلطیاں معمول ہیں۔ جیسے آر ٹی ایس پورا سسٹم ہی بیٹھ گیا تھا۔ لہذا عدالتیں اداروں کی رپورٹ کو اہمیت دیتی ہیں۔ جن میں اس طرح کی غلطیوں کو زیادہ سنجیدہ نہیں لیا جاتا۔‘
پتن نے کن حلقوں کے فارم غائب ہونے کا دعوی کیا؟
پتن ترقیاتی تنظیم کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر جہاں انتخابی نتائج جاری کیے گئے ہیں ان میں لاہور کے ایک قومی جب کہ 20 صوبائی اسمبلیوں کے حلقوں کے مختلف پولنگ سٹیشنز کے فارم 45کی جگہ فارم 46 اپ لوڈ کیے گئے ہیں۔ لہذا فارم 45 غائب ہیں۔
غائب ہونے والے فارم 45 میں قومی اسمبلی کے حلقہ این 125 اور پنجاب اسمبلی کے حلقوں میں پی پی
146, 148, 150, 151, 152, 153, 154, 156, 157, 159, 160, 162, 163, 164, 166, 167, 170, 172, 173 ،174 کے فارمز شامل ہیں۔
سرور باری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے ایک تحقیقاتی رپورٹ تیار کی جس میں مذکورہ 21 حلقوں کے فارم 45 کی جگہ فارم 46 اپ لوڈ تھے کیونکہ الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر فارم 45 کی آپشنز میں ان حلقوں کے ریکارڈ میں فارم 45 کی بجائے فارم 46 اپ لوڈ تھے۔
’لیکن جب ہم نے تین جولائی کو یہ رپورٹ اور پریس ریلیز میڈیا کو جاری کی تو الیکشن کمیشن نے چند گھنٹوں بعد ہی فارم 45 اپ لوڈ کر دیے تھے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’الیکشن کمیشن قانون کے مطابق اتنی تاخیر سے نتائج اپ لوڈ نہیں کر سکتا۔ گوگل سے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ یہ فارم بعد میں اپ لوڈ کیے گئے اور اب ان کی حیثیت پر بھی سوالیہ نشان ہے۔ کیونکہ اگر یہ نتائج دوبارہ بنائے گئے یا غلطی سے پہلے اپ لوڈ نہیں ہوئے تو اب یہ کہاں سے آگئے؟ اس معاملہ کی چھان بین ہونا چاہیے ہم اپنے مؤقف اور رپورٹ پر قائم ہیں۔‘
فارمز کی تاخیر سے اپ لوڈ کے دھاندلی کے الزامات پر اثرات
سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ایسا ممکن نہیں کہ الیکشن کمیشن کو ان 21 حلقوں کے تمام پولنگ سٹیشنز کے فارم 45، جو ہر پولنگ کا عملہ پہنچانے کا ذمہ دار ہوتا ہے، موصول نہ ہوئے ہوں۔ کیونکہ ان فارمز کی بنیاد پر کسی بھی حلقے کا مکمل نتیجہ تیار کر کے فارم 47کے ذریعے جاری کیا جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اگر ایسا کچھ ہوا بھی ہے تو یقینی طور پر اپ لوڈ کرنے میں کسی سے غلطی ہو سکتی ہے۔ کیونکہ اتنے بڑے انتخابات کے نتائج محدود وقت میں ویب سائٹ پر جاری کرنا بھی ایک مشکل کام ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اگر فارمز نہ ہوں تو مسئلہ بن سکتا ہے اگر فارمز اپ لوڈ ہو چکے ہیں تو معاملہ زیادہ پیچیدہ نہیں رہا۔‘
سابق وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل امجد حسین شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ویب سائٹ پر الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری نتائج کے فارم اگر اب اپ لوڈ ہو چکے ہیں تو اس کا ان حلقوں کے نتائج پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
’جن حلقوں کے نتائج کو عدالتوں میں چیلنج کیا گیا ہے تو عدالتیں الیکشن کمیشن کی جانب سے پیش کیے گئے ریکارڈ کو کارروائی کا حصہ بناتی ہیں۔ البتہ اس طرح کا ردوبدل اگر ثابت ہو جائے تو درخواست دہندہ کے موقف میں تھوڑی جان ضرور آسکتی ہے۔
’عدالتیں ثبوتوں اور ریکارڈ کی بنیاد پر فیصلے کرتی ہیں اور اس طرح کی انسانی کوتاہی کو عدالت بھی زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا، کیوں کہ محکموں کا مؤقف ہوتا ہے کہ یہ وقت کی کمی یا کام کے پریشر کی وجہ سے ہوا۔ لہذا فوری درستگی کر دی گئی ہے اب اس میں کوئی غلطی نہیں ہے۔‘
امجد شاہ کے بقول، ’ہمارے جن اداروں میں کمپیوٹرائزڈ نطام ہے وہاں نہ زیادہ ماہر ملازم ہوتے ہیں اور نہ ہی جدید نظام اتنا مضبوط کہ اس میں غلطیوں کا احتمال نہ ہو۔ لہذا اگر ان فارمز کے اب اپ لوڈ ہونے سے نتائج پر کوئی اثر نہیں پڑتا تو قانونی طور پر بھی اس کا کسی کو فائدہ یا نقصان نہیں ہوگا۔ یہاں تو انتخابی نتائج بنانے والا پورا آر ٹی ایس ہی بیٹھ گیا تھا کسی کو کوئی فرق پڑا؟‘