فارم 47: تین بڑی جماعتوں کے تین دلچسپ حقائق

آٹھ فروری کے الیکشن میں کئی سیاسی جماعتوں کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہ ہونے کے باعث مخالف اور حمایتی دھڑوں کو نقصان پہنچا۔

آٹھ فروری، 2024 کو کراچی میں الیکشن عملہ پولنگ ختم ہونے کے بعد ووٹوں کی گنتی کر رہا ہے (اے ایف پی)

قومی اسمبلی کی 266 عام نشستوں میں سے 264 کے نتائج آ چکے ہیں۔ این اے آٹھ باجوڑ کے انتخابات ملتوی کر دیے گئے جبکہ این اے 88 خوشاب دو کے نتائج روک دیے گئے ہیں۔

فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) کے مطابق حالیہ انتخابات میں ڈالے گئے ووٹوں کا تناسب 47.6 فیصد رہا جب کہ 2018 میں یہ تناسب 52 فیصد تھا۔

الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر جاری فارم 47 کے مطابق اب تک پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حمایت یافتہ اراکین، جنہوں نے آزاد حیثیت میں انتخابات میں حصہ لیا، سب سے زیادہ تعداد میں قومی اسمبلی کی (93) نشستیں جیتے ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ ن دوسری بڑی جماعت بن کر سامنے آئی، جس کی سیٹوں کی تعداد 75 اور پاکستان پیپلز پارٹی کی 54 ہے۔

ایم کیو ایم پاکستان 17، آزاد نو، جمعیت علمائے اسلام پاکستان چار، پاکستان مسلم لیگ تین، استحکام پاکستان پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی دو، دو نشستیں جیتنے میں کامیاب رہیں۔

اس کے علاوہ مسلم لیگ ضیاالحق، مجلس وحدت المسلمین، پختونخوا نیشنل عوامی پارٹی، بلوچستان عوامی پارٹی، پختونخوا ملی عوامی پارٹی، اور نیشنل پارٹی ایک، ایک سیٹ جیت سکیں۔

اب تک جن 264 حلقوں کے نتائج آ چکے ہیں جن کے فارم 47 کے مطابق، جو الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر موجود ہیں، قومی اسمبلی کے 38 حلقے ایسے ہیں، جہاں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے مجموعی ڈالے گئے ووٹوں میں سے 50 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کیے ہیں۔

ان میں سے 20 حلقے خیبر پختونخوا میں جبکہ 18 پنجاب کے ہیں۔

50 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے پی آٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار
نمبر

امیدوار کا نام

حلقہ   ڈالے گئے مجموعی ووٹ حاصل کردہ ووٹ
1 احمد علی خان این اے 2 سوات 1 177355 88993
2 سہیل سلطان این اے 4 سوات 3 155774 88009
3 جنید اکبر این اے 9 مالاکنڈ 196146 113513
4 گوہر علی خان این اے 10 بونیر 201230 110023
5 علی خان جدون این اے 17 ایبٹ آباد 172663 97177
6 عمر ایوب خان این اے 18 ہری پور 349897 192948
7 اسد قیصر این اے 19 صوابی 1 211710 115635
8 شہرام خان این اے 20 صوابی 2 212976 122965
9 مجاہد علی این اے 21 مردان 1 232257 119023
10 محمد عاطف این اے 22 مردان 2 214974 115801
11 علی محمد این اے 23 مردان 3 198031 102175
12 محمد اقبال خان این اے 27 خیبر 135401 85514
13 ارباب عامر ایوب این اے 29 پشاور 2 122708 68792
14 شاندانہ گلزار این اے 30 پشاور 3 131994 78971
15 شیر ارباب علی این اے 31 پشاور 4 143078 82985
16 آصف خان این اے 32 پشاور 5 220490 122792
17 شہریار آفریدی این اے 35 کوہاٹ 242064 128491
18 یوسف خان این اے 36 ہنگو 133184 73076
19 شاہد احمد  این اے 38 کرک 214177 117887
20 نسیم علی شاہ این اے 39 بنوں  277991 147087
21 محمد احمد چٹھہ این اے 66 وزیر آباد 304248 160676
22 حاجی امتیاز احمد چوہدری این اے 68 منڈی بہاؤالدین 1 297621 166093
23 اسامہ احمد میلہ این اے 83 سرگودھا 2 268068 136566
24 محمد جمال احسن خان این اے 89 میانوالی 1 300394 217427
25 عمیر خان نیازی این اے 90 میانوالی 2 284580 179820
26 علی افضل ساہی این اے 95 فیصل آباد 1 278347 144761
27 رانا عاطف این اے 101 فیصل آباد 7 259009 134840
28 چنگیز احمد خان این اے 102 فیصل آباد 8 259655 132526
29 محمد علی سرفراز این اے 103 فیصل آباد 9 259161 147734
30 محمد محبوب سلطان این اے 108 جھنگ 1 334765 169578
31 وقاص اکرم این اے 109 جھنگ 2 299456 176586
32 محمد امیر سلطان این اے 110 جھنگ 3 339331 199590
33 سردار محمد لطیف کھوسہ این اے 122 لاہور 6 227357 117109
34 ملک محمد عامر ڈوگر این اے 149 ملتان 2 233206 146613
35 جاوید اقبال وڑائچ این اے 172 رحیم یار خان 4 253822 129307
36 محمد معظم علی خان این اے 177 مظفر گڑھ 3 223598 113892
37 خواجہ شیراز محمود این اے 183 تونسہ 257282 134048
38 زرتاج گل این اے 185 ڈی جی خان 2 176476 94881

آٹھ حلقے جہاں مسلم لیگ ن تحریک لبیک کی وجہ سے ہاری

2018 کے انتخابات میں تحریک لبیک پاکستان نے پہلی بار حصہ لیا اور22 لاکھ ووٹوں کے ساتھ پاکستان کی پانچویں بڑی جماعت بن کر سامنے آئی۔

انہی انتخابات میں تحریک لبیک کی وجہ سے پی ٹی آئی کو قومی اسمبلی کی 17 نشستوں پر جب کہ پاکستان مسلم لیگ ن کو 14 سیٹوں پر شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

حالیہ انتخابات میں تحریک لبیک کی وجہ سے مسلم لیگ ن کو قومی اسمبلی کی آٹھ نشستوں پر شکست اٹھانا پڑی۔

یہ سوال الگ ہے کہ اگر ٹی ایل پی نہ ہوتی تو کیا یہ سارا ووٹ مسلم لیگ ن کو پڑنا تھا یا نہیں؟

جن حلقوں میں تحریک لبیک کا ووٹ مسلم لیگ ن کی شکست کی وجہ بنا ان میں این اے 67 حافظ آباد، این اے 79 گوجرانوالہ، این اے 81 گوجرانوالہ، این اے 111 ننکانہ صاحب،این اے 115 شیخو پورہ، این اے 116 شیخو پورہ، این اے 121 لاہور اور این اے 133 قصور شامل ہیں۔

آٹھ حلقے جہاں مسلم لیگ ن کو پیپلز پارٹی کی وجہ سے شکست ہوئی

حالیہ انتخابات میں پی پی پی نے پنجاب سے قومی اسمبلی کی چھ سیٹیں جیتیں جب کہ خیبر پختونخوا سے اس کے حصے میں صرف ایک سیٹ آئی۔

جے یو آئی بھی پیپلز پارٹی کی حمایت سے خیبر پختونخوا میں دو سیٹیں جیت سکتی تھی۔

این اے ون چترال میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار عبد الطیف نے 61 ہزار 834 ووٹ لیے جب کہ ان کے مدمقابل جے یو آئی کے محمد طلحہ محمود نے 42 ہزار 987، ن لیگ کے افتخار الدین نے 20 ہزار سات اور پیپلز پارٹی کے فضل ربی نے 23 ہزار 723 ووٹ حاصل کیے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسی طرح این اے 44 ڈی آئی خان میں مولانا فضل الرحمٰن بھی علی امین گنڈا پور سے اس لیے ہارے کہ ان کے مدمقابل پیپلز پارٹی کے فیصل کریم کنڈی تھے اور دونوں کے مجموعی ووٹ علی امین گنڈا پور سے زیادہ بنتے ہیں۔

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن اگر پنجاب میں سیٹ ایڈ جسٹمنٹ کرتیں تو آٹھ حلقے ایسے تھے، جہاں پیپلز پارٹی کی حمایت سے مسلم لیگ ن قومی اسمبلی کی سیٹیں جیت سکتی تھی۔

مسلم لیگ ن این اے 16 ایبٹ آباد کا انتخاب بھی اس وجہ سے ہاری کہ یہاں اس کے ٹکٹ ہولڈر مرتضی جاوید عباسی پر ن لیگ کے ہی منحرف رکن سردار مہتاب عباسی بھاری پڑے اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار کا راستہ صاف ہو گیا۔

دیگر نشستیں، جہاں مسلم لیگ کو پیپلز پارٹی کی وجہ سے پنجاب میں  شکست کا سامنا کرنا پڑا، میں این اے 84 سر گودھا، این اے 86 سرگودھا، این اے 142ساہیوال، این اے 146 خانیوال، این اے 154 لودھراں، این اے 169 وہاڑی، این اے 170 رحیم یار خان اور این اے 181 لیہ شامل ہیں۔

این اے 91 بھکر میں بھی مسلم لیگ ن کا امیدوار پی ٹی آئی سے اس لیے ہار گیا کیونکہ آزاد امیدوار سعید خان نے 71 ہزار سے زیادہ ووٹ لیے اور یوں یہاں سے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ ثنا اللہ مستی خیل ایک لاکھ چھ ہزار تین ووٹ کے ساتھ جیت گئے۔

این اے 95 فیصل آباد میں استحکام پاکستان اور ن لیگ میں ووٹوں کی تقسیم کا فائدہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار محمد سعد اللہ کو ہوا اور وہ ایک ہزار سے کچھ زیادہ ووٹوں کے ساتھ کامیاب قرار پائے۔

نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست