پاکستان میں آٹھ فروری کو عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف مختلف سیاسی جماعتیں کئی شہروں میں احتجاجی مظاہرے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
احتجاج کرنے والی سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ عام انتخابات کے نتائج میں نہ صرف تاخیر کی گئی بلکہ مبینہ طور پر ردوبدل بھی کیا گیا۔
ان سیاسی جماعتوں میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) اور جماعت اسلامی سمیت کئی دیگر جماعتیں شامل ہیں، جنہوں نے اتوار کو پشاور، کوئٹہ، کراچی، راول پنڈی اور سکھر سمیت متعدد شہروں میں احتجاجی ریلیاں نکالیں۔
بعض جماعتیں احتجاجی دھرنے بھی دیے رہی ہیں۔ اس حوالے سے اتوار کو پی ٹی آئی نے لاہور میں احتجاجی ریلی کی کال دی تھی، تاہم بعد میں اس ریلی کا مقام تبدیل کر دیا گیا۔
لاہور سے نامہ نگار فاطمہ علی کے مطابق پی ٹی آئی نے لاہور میں لبرٹی چوک پر احتجاج کی کال دی تھی، بعد میں رہنما تحریک انصاف حماد اظہر نے کارکنان کو لبرٹی چوک جانے سے روک دیا۔
احتجاج کی کال کے پیش نظر لبرٹی چوک پر پولیس کی بھاری نفری تعینات تھی۔
پی ٹی آئی کے کارکنوں نے انتخابی نتائج میں مبینہ دھاندلی کے خلاف مانسہرہ، کراچی، گجرانوالہ، راول پنڈی، سیال کوٹ اور اسلام آباد سمیت کئی شہروں میں احتجاج کیا۔
دوسری جانب اسلام آباد پولیس نے اتوار کو ایک بیان میں سیاسی جماعتوں کو خبردار کیا کہ قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
اسلام آباد پولیس نے ایکس پر لکھا کہ ’سیاسی جماعتوں کے ذمہ داران سے گزارش ہے کہ قانون ہاتھ میں مت لیں اور قانون شکنی کے رویے کی حوصلہ افزائی مت کریں۔‘
بیان کے مطابق: ’ہائی سکیورٹی زون میں کسی بھی قسم کے اجتماع کی اجازت نہیں۔ اسلام آباد کیپیٹل پولیس نے پرامن انتخابات کو یقینی بنایا ہے۔ بعد از انتخابات امن عامہ اولین ترجیح ہے۔‘
سیاسی جماعتوں کے ذمہ داران سے گذارش ہے کہ قانون ہاتھ میں مت لیں ۔
— Islamabad Police (@ICT_Police) February 11, 2024
قانون شکنی کے رویے کی حوصلہ افزائی مت کریں۔ قانون شکنوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کی جائے گی ۔
ہائی سیکیورٹی زون میں کسی بھی قسم کے اجتماع کی اجازت نہیں ہے۔ اسلام آباد کیپیٹل پولیس نے پر امن انتخابات کو یقینی…
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق راول پنڈی میں پولیس نے پی ٹی آئی کے درجنوں حامیوں کے خلاف اس وقت آنسو گیس استعمال کی، جب انہوں نے انتخابی نتائج جمع کرنے کے لیے استعمال ہونے والے دفتر کے باہر دھرنا ختم کرنے سے انکار کر دیا۔
کراچی میں پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی اور دیگر جماعتوں نے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف الیکشن کمیشن کے دفتر کے ساتھ ساتھ مختلف علاقوں میں احتجاج کیا۔
جماعت اسلامی نے سکھر، بدین، میرپورخاص اور کراچی کے مختلف مقامات پر احتجاج کیا۔
کراچی کے ضلع شرقی حسن سکوائر پر جماعت اسلامی کراچی کے این اے 238 کے امیدوار اسامہ رضی نے انڈپینڈنٹ اردو کی نامہ نگار صالحہ فیروز خان سے بات کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ ’انتخابات کے نام پر فراڈ کیا گیا، عوام پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے لیے سڑکوں پر ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن اپنا کام، اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر رہا بلکہ الیکشن کمیشن نے انتخابات کو سبوتاژ کیا۔ انصاف ہونے تک ہم احتجاج جاری رکھیں گے اور انصاف کے لیے قانون کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے۔‘
امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم کا کہنا تھا کہ ’عام انتخابات میں نتائج میں تبدیلی کر کے ایسا شرم ناک کھیل کھیلا گیا کہ بڑے سے بڑا آمر بھی شرما جائے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’کراچی کی عوام کے مینڈیٹ پر ڈاکا ڈالا گیا، الیکشن کمیشن لکھے ہوئے اور دیے گئے فیصلے پڑھ کر سنا رہا ہے، سیٹوں کا بٹوارا پیپلز پارٹی نے کیا۔‘
انتخابی نتائج میں مبینہ دھاندلی کے خلاف کوئٹہ میں بھی کئی سیاسی جماعتوں کے احتجاجی دھرنے گذشتہ تین روز سے جاری ہیں۔
اتوار کو کوئٹہ کے ڈی سی آفس کے سامنے بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں کا دھرنا تیسرے روز بھی جاری رہا جس میں خواتین کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
کوئٹہ سے صحافی اعظم الفت کے مطابق دھرنے میں شامل خواتین کا موقف ہے کہ آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف تمام جماعتیں مل کر احتجاج کر رہی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
احتجاجی دھرنے میں شریک نیشنل پارٹی کی خاتون رہنما صابرہ اسلام نے کہا کہ ’بلوچستان کی تمام پارٹی انتخابات میں دھاندلی کے خلاف اکھٹی ہوئی ہیں۔‘
انہوں نے الزام لگایا کہ ’بلوچستان میں جعلی حکومت لانے کی کوشش کی جا رہی ہے جس کا بلوچستان کے عوام سے کوئی تعلق نہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’انتخابات کے نتائج دو دن تک روکنے کے بعد ہماری پارٹی کو شکست دینے کی کوشش کر رہے ہیں جس کی ہم کسی صورت اجازت نہیں دیں گے۔‘
اس حوالے سے الیکشن کمیشن بلوچستان کے ریجنل اسسٹنٹ کمشنر نعیم احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’بلوچستان کے دور دراز علاقے اور امن و امان کی صورت حال نتائج میں تاخیر کا سبب بنے، لیکن اب بلوچستان کے تمام 16 قومی اور 51 صوبائی حلقوں کے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج مکمل ہو گئے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’نتائج میں تاخیر صوبے کے مختلف علاقوں میں جاری احتجاج اور شاہرائیں بند ہونے کی وجہ سے ہوئی۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔